اس وقت جس کتاب کو میں کھول کے صفحہ، صفحہ پڑھ رہی ہوں وہ عرفان صادق صاحب کی چوتھی شاعری کی کتاب یہی لمحہ محبت ہے، خوبصورت سرورق، خوبصورت شاعری، خوبصورت طباعت، اور بولتا ہوا کلام. ایک سو ساٹھ صفحات پہ مشتمل یہ کلام غزلوں پہ مشتمل ہے اور سیوا پبلی کیشنز نے اسے سن 2016 میں شایع کیا تھا.
عرفان صادق صاحب اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں باکمال شاعری کرتے ہیں. دبنگ لہجے اور مسکراتے چہرے والے عرفان صادق تین نومبر انیس سو اکہتر کو حافظ آباد کے ایک گاوں قلعہ بلونت سنگھ میں پیدا ہوے اور میں اکثر محفلوں میں سنتی ہوں کہ وہ اپنے گاؤں کا ذکر بڑی محبت سے کرتے ہیں یہ بڑی بات ہے کہ آپ اپنی جنم بھومی اپنے آباواجداد، اپنے آپ کو یاد رکھیں یہ خوبی عرفان صادق میں بدرجہ اتم موجود ہے. ان کی تعلیم ایم اے اردو ہے اور وہ سیوا پبلی کیشنز کے چیرمین ہیں جو کہ ایک مشہور اشاعتی ادارہ ہے اور ادب کے فروغ کے لیے دن رات انتھک محنت میں مصروف کارہے. عرفان صادق کی شایع شدہ تصنیفات کی تفصیل کچھ یوں ہے.
1. رتجگوں کی بارش(1997)
2.چاند کی شال میں لپٹے ہوے وعدے(2002)
3.میں آنکھیں بھول آیا ہوں
4.یہی لمحہ محبت ہے(2008)
5.خواب زندہ رہتے ہیں (2023)
6.خامشی سلگتی ہے(2024)
7.لوں لوں وچ اڈیک(2018)
8.ابد آباد. منتخب شاعری(2019)
9.زخم نمای(زیر طبع)
10.چننگاں(2024)
یہی لمحہ محبت ہے کی تزیین و اہتمام حمزہ عرفان کا ہے کتاب کا انتساب جناب عباس تابش کے نام ہے. خودی ان کی ذات اور شخصیت کا حصہ ہے فرماتے ہیں.
میں ترے دست سخاوت کو بھلا کیا کرتا
مرے آگے بھی کبھی میری ہتھیلی نہ ہوی
ان کی شاعری میں احساس محرومی، تنہائی، غم،اداسی،خوف اور خوشی نے بھی ایک باوقار چولہ پہن رکھا ہے. شعر دیکھیے گا،
وہی تو اصل میں ہے غم شناس مٹی کا
بدن پہ پہنا ہے جس نے لباس مٹی کا.
اپنی مٹی سے عقیدت اور احترام میں اس شعر سے بڑھ کے اور کیا ہو سکتا ہے بھلا
اور رات سے وہی ازلی خوف جس کا سامنا کرتے کرتے ہم تمام انسان آخر کار رات ہی ہو جاتے ہیں.
اک عجب خوف امڈ آتا ہے دروازوں سے
رات ہوتی ہے تو بھر جاتا ہوں آوازوں سے
اور اداسی کی مدھر تانوں پہ ناچتا ہوا عرفان صادق کا دل دھویں اور بارود کے طوفان کو روکنے کی دوہاییاں دیتا رہتاہے. اپنے آپ کو جلتے ہوے زمانوں کی دھوپ کہنے والے شاعر نے محبوبہ کا درجہ سرمءی شام کہہ کر ہی بڑھا دیا ہے. اور نباہ کو بیچ چوراہے میں چھوڑنے کا جواز یوں پیش کرتے ہیں کہ
مرے مزاج میں ٹھنڈک ترے مزاج میں دھوپ
میں جانتا ہوں ترے ساتھ چل سکوں گا نہیں
خواب دیکھنے اور خواب بننے والے عرفان صادق خوابوں کے ٹوٹنے پہ سیخ پا نہیں ہوتے ہاں تھوڑے ملول ضرور ہوتے ہیں لیکن امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے اور امید اور روشنی کے نیے دییے روشن کرتے ہیں .
عمر بھر میں نے جلاے ہیں امیدوں کے دیے
پھر بھی روشن مری آنکھوں کی حویلی نہ ہوی
اور آبلہ پای کی داستان کو یوں رنگین بناتے ہیں کہ
یہ ضروری تو نہیں محو سفر ہی رہتے
آبلے پاوں کی زنجیر بھی ہو سکتے ہیں
اور امن کو یوں تصویر کرتے ہیں کہ
یہ جو تلواریں لیے بیٹھے ہیں چوراہوں پر
ایک لمحے میں بغل گیر بھی ہو سکتے ہیں
اور جب عرفان صادق عالم حزن میں ڈوب جاتے ہیں تو پھر ڈھولک کی تھاپ بھی انھیں خوش کرنے سے قاصر ہو جاتی ہے شعر ملاحظہ فرمائیں.
تنہائیوں سے خوش ہوں نہ ڈھولک کی تھاپ سے
روٹھا ہوا ہوں آج تو میں اپنے آپ سے
ہر امن پسند انسان کی طرح عرفان صادق بھی خوف، سراسیمگی اور اسلحے بارود کو انسانی جان و مال اور امن کے لیے بہت بڑا عذاب سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ
دیکھ بارود کی بو شہر میں آ پہنچی ہے
اب تری ریشمی گفتار سے کیا ہونا ہے
امن اور محبت کے داعی، انا کے چوغے میں لپٹی لپٹے ہوے اس دور کے نوحے پڑھتے، روتے ہنستے شاعر کی اس کتاب یہی لمحہ محبت پڑھتے ہوے میری آنکھوں کے کونے بار بار نم ہوے
عرفان صادق صاحب کو اس خوبصورت شعری مجموعے کے لیے دلی مبارکباد اور اس خوبصورت شعر کے ساتھ اجازت
میں ان کے دکھ سمجھتا ہوں اس لیے عرفان
شجر پہ بیٹھے پرندے اڑانے والا نہیں
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gnail.com
Leave a Reply