تحریر و تحقیق: احمد منیب (نیدرلینڈز)
انتخاب: سلیم خان
اَوزانِ الفاظ و حروف:
فنِ عروض شاعری کی تکنیک اور اُصول و قواعد سے بحث کرتا ہے اور اوزان و بحور سے لے کر زحافات و قوافی تک مختلف ذیلی شعبوں میں منقسم ہے۔ عروض کا مقصد یہ ہے کہ اس علم کا سیکھنے والا شخص خوش آہنگ اور مترنم کلام کو غیرمترنم اور بےآہنگ کلام سے متمیز کرنے کے قابل ہو جائے۔ کلام کی مقدم الذکر قسم کو ہم اصطلاح میں نظم کہتے ہیں اور مؤخرالذکر نثر کہلاتی ہے۔ بالفاظِ دیگر عروض نظم کے اصول اور قواعد کے مطالعے کا نام ہے۔
اُردو میں عروض عربی اور فارسی سے وراثتاً منتقل ہوا ہے۔ اِس مضمون کا اصل مقصد یہ ہے کہ اردو زبان و ادب کے روایتی عروض و بحور کو حتی الامکان اُردو زبان کے مزاج کے مطابق ڈھال کر آسان فہم کر کے اس طرح پیش کیا جائے کہ بلاضرورت اسلاف و اساتذہ کے قائم کردہ اصولی و آفاقی سانچوں سے باہر نکلے بغیر اس قیمتی علمی و ادبی سرمائے کی اہمیت اور وُقعت سے بھی مقدور بھر آگاہی ہو جو اِمتدادِزمانہ کے باعث اوجھل ہو چکا ہے۔ چنانچہ جدت اور سہولت کے نام پر ہونے والے بگاڑ اور روایتی عروض دانی کی کٹر مردم آزاری کے بیچوں بیچ متوازن راہ نکالی جائے جواردو زبان اور اہلِ زبان کے لیے مطبوع اور گوارا ہو نیز اُردو عروض کو مسخ کر کے روایت سے منقطع بھی نہ کر چھوڑے۔
وزن:
کوئی پیمانہ مقرر کر لینا وزن کہلاتاہے۔
وزن کےعمومی مفہوم کو لے لیجیے۔ جس طرح کلو کا ایک باٹ طے کیا جائے اورپھر کسی چیز کا وزن ایک کلو قرار دیا جائے گا تو لازم ہو گا کہ وہ اس باٹ کے وزن کے برابرہو۔ یعنی ہم نے ایک پیمانہ مقرر کیا اور اس کی تکرار یقینی بنائی۔ اگر کسی معیار کی تکرار نہ ہو تو وہ وزن نہیں کہلا سکتا۔ جیسے کوہ ہمالیہ ہےجس کا وجود توہے لیکن اس کے برابر کی چیزیں ہمارے روزمرہ استعمال میں نہیں آتیں۔ لہٰذا ہمالیہ کا وزن کے کسی پیمانے سے کوئی تعلق نہیں۔
ہر پیمائش کا ہی معاملہ ہے۔ کسی بھی چیز یا جگہ کی لمبائی ماپنےکے لیے فیتہ یا گز مقرر کیا جاتا ہے اور پھر اسی کی تکرار ہوتی ہے۔ موسیقی میں وقت کی ایک مدت مقرر کی جاتی ہے جس کے مکمل ہوتے ہی طبلے کی ایک مخصوص چوٹ پڑتی ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے جسے تال کہتے ہیں۔ یہ موسیقی کا وزن ہے۔
شعر کے وزن میں بھی پیمانہ مقرر کیا جاتا ہے ۔ شعر کے وزن کا پیمانہ حروف کی حرکات و سکنات کو مانا جاتا ہے۔ اعراب یعنی زیر، زبر، پیش کو حرکات کہتے ہیں اور جزم اور وقف کو سکنات۔ گویا وزنِ شعری کی پیمائش الفاظ کے معیاری تلفظ یعنی زیر، زبر، پیش، جزم اور وقف کی بنیاد ہوتی ہے۔
حرکات و سکنات:
حرکات اردو میں سادہ طور پر تین ہیں۔ زبر، زیر اور پیش۔ انہیں بالترتیب فتحہ، کسرہ اور ضمہ بھی کہتے ہیں۔
ہر اردو خوان کو چاہیے کہ ان کی نوعیت اور فعل سے اچھی طرح واقفیت حاصل کرے۔
ساکن وہ حرف ہے جس پر حرکت نہ ہو۔ یعنی جس حرف پر زیر، زبر یا پیش نہ ہو وہ لازماً ساکن ہو گا۔ جیسے دل میں ل، شوق میں و اور ق۔ دشت میں ش اور ت۔
ساکن کی جمع کو سکنات کہتے ہیں جیسے حرکت کی جمع کو حرکات کہا جاتا ہے۔ سکنات کی دو قسمیں ہیں۔ جزم اور وقف۔
جزم وہ ساکن ہے جو کسی حرکت کے فوراً بعد آئے۔ جیسے شب میں ب۔ رقص میں ق۔ نعت میں ع۔
وقف وہ ساکن ہے جس سے پہلے کم از کم ایک ساکن ضرور موجود ہو۔ زیادہ سے زیادہ تین بھی ہو سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ ہماری زبانوں میں نہیں پائے جاتے۔ مثالیں دیکھیے:
رقص میں ص۔ اس سے پہلے ق بھی ساکن ہے۔ لہٰذا اس پر جزم ہے اور ص پر وقف۔
دشت میں ت۔ پر وقف ہے کیونکہ ش پہلا ساکن ہے تو وہ جزم والا ہے۔
دوست میں و پر جزم ہے اور س اور ت دونوں وقف والے ہیں۔
جس حرف پر زبر ہو اسے مفتوح کہتے ہیں۔ جس پر زیر ہو اسے مکسور کہتے ہیں۔ جس پر پیش ہو اسے مضموم کہتے ہیں۔ جس پر جزم ہو اسے مجزوم کہتے ہیں۔ اور جس پر وقف ہو اسے موقوف کہا جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ پہلا ساکن مجزوم کہلاتا ہے۔ بعض اوقات اسے صرف ساکن بھی کہہ لیتے ہیں لیکن دوسرے اور تیسرے ساکن کو ہمیشہ موقوف کہیں گے۔
اگرچہ دونوں ساکن ہی کی قسمیں ہیں لیکن شعر کا وزن متعین کرنے میں مجزوم اور موقوف حروف مختلف کردار ادا کرتے ہیں۔
الفاظ کے حرفِ اوّل اور حرفِ آخر کی کیفیت
فارسی، عربی، ہندی اور پنجابی نے اردو قواعد اور الفاظ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ فارسی اور عربی میں کوئی لفظ ساکن حرف سے شروع نہیں ہوتا یعنی پہلے حرف پر زیر، زبر یا پیش ہوتی ہے جبکہ ہندی اور پنجابی میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جو ساکن حرف سے شروع ہوتے ہیں۔ جیسے پریم۔ اس میں پ پر زبر نہیں ہے بلکہ یہ ویسے ہی بولا جاتا ہے انگریزی میں سکول کا س۔ یعنی دوسرے حرف کے ساتھ اس طرح ملا کر کہ پہلے حرف کی کوئی حرکت نہ معلوم ہو۔ ان چار اہم زبانوں کا چلن معلوم ہونے کے بعد اردو کو دیکھتے ہیں۔
اردو عموماً عربی اور فارسی قاعدے پر چلتی ہے۔ یعنی کسی بھی لفظ کا آغاز ہم اردو زبان میں حرکت کے بغیر نہیں کر سکتے۔ ہر لفظ کے پہلے حرف پر زیر، زبر یا پیش ہونی لازم ہے۔
ان الفاظ کے سلسلے میں جو برصغیر کی مقامی زبانوں یا انگریزی وغیرہ سے اردو میں شامل ہو گئے ہیں اور پہلے حرف پر حرکت نہیں رکھتے، یہ قاعدہ ہے کہ ان کے پہلے اور دوسرے حرف کو ایک ہی مخلوط حرف سمجھا جاتا ہے۔ مخلوط حروف وہ ہوتے ہیں جو ب، پ، ت، ن، ج وغیرہ کی طرح ایک سادہ آواز کو ظاہر کرنے کی بجائے دو آوازوں کو اکٹھا ظاہر کریں جیسے بھ، پھ، تھ، نھ، جھ وغیرہ۔
اردو میں جب پریم یا سکول جیسے الفاظ بولیں گے تو ان کے پہلے حروف یعنی پ اور س ساکن نہیں سمجھے جائیں گے بلکہ پریم کا پر ایک ہی حرف ہو گا جس پر زیر ہے اور سکول کا سکایک حرف کی طرح بولا جائے گا جس پر پیش ہے۔ یعنی پریم میں شروع کے دو حروف پ اور ر لکھے تو دو جائیں گے مگر بھ، تھ، ٹھ وغیرہ کی طرح آواز ایک ہونے کی وجہ سے شمار ایک حرف کیا جائے گا۔
مخلوط حروف ان آوازوں کو ظاہر کرتے ہیں جو عام حروف تہجی سے ظاہر نہیں ہو سکتیں۔ جیسے بھ کی آواز ہم ب سے ظاہر نہیں کر سکتے۔ اس لیے اس کے ساتھ دوچشمی ھ ملائی جاتی ہےلیکن یاد رہے کہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا یعنی یہ کوئی قطعی قاعدہ نہیں ہے۔ جیسے پریم کی ابتدائی آواز میں پ اور ر بالکل ملا کر تو بولے جاتے ہیں مگر پ اور ر کو ملا کر لکھا نہیں جا سکتا۔ یہ پر ہی لکھا جاتا ہے بس پڑھنے اور بولنے والے کی علمی استعداد پر منحصر ہے کہ وہ یہ پہچاننے کے قابل ہو کہ یہ اصل میں ہندی لفظ ہے اور اس میں پ پر زبر نہیں بولی جائے گی۔ اس لیے تقطیع کرتے ہوئے باعتبارِ وزن پ اور ر دو حروف کی بجائے ایک ہی حرف شمار ہوں گے جو اردو کے اوپر بیان کردہ قاعدے کے مطابق متحرک ہو گا۔حاصل یہ کہ اردو میں ہر لفظ کا پہلا حرف متحرک ہونا ضروری ہے۔ اگر ہندی یا انگریزی وغیرہ کا کوئی ایسا لفظ ہے جس کا پہلا حرف زیر زبر پیش نہ رکھتا ہو تو ہم اسے الگ حرف نہیں سمجھتے بلکہ اگلے حرف کے ساتھ ملے ہوئے ایک ہی حرف کے طور پر شمار کرتے ہیں۔ اس طرح دو حروف سے مل کر بننے والے اس حرف پر کوئی نہ کوئی حرکت ضرور ظاہر ہو جاتی ہے اور اصول قائم رہتا ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح اردو میں ہر لفظ کا پہلا حرف متحرک ہونا ضروری ہے بعینہٖ ہر لفظ کا آخری حرف ساکن ہونا بھی اردو کا اصول ہے۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی لفظ ایسا ہو جس کے سب سے آخری حرف پر زیر، زبر یا پیش پائی جائے۔ ہاں، ایسے الفاظ تراکیب میں البتہ کبھی کبھی مل جاتے ہیں۔ جیسے السلامُ علیکم میں السلامُ کی میم پر پیش ہے اور یہ دو الفاظ یعنی السلام اور علیکم کے مرکب میں موجود ہے۔
الفاظ کے حرفِ اوّل اور حرفِ آخر کی کیفیت
زبان کی اصل کلام ہے جبکہ تحریر بعد میں ایجاد ہوئی۔ لہٰذا تحریرکبھی اصل کے اس مقام پر فائز نہیں ہو سکتی جو کلام یعنی بول چال کا ہے۔ یہ معاملہ صرف پرانی زبانوں تک محدود نہیں بلکہ آئندہ بھی فطری زبانوں کے ساتھ وابستہ ہے۔ *چنانچہ جب بھی کوئی نئی زبان نموپذیر ہونی شروع ہو گی تو ابتدا میں اس کی عبارات و کلمات کو محفوظ کرنے کی غرض سے کوئی نہ کوئی رسم الخظ مقرر ہو گا اورتحریر کی کوئی نہ کوئی شکل وجود میں آئے گی۔
پس زبان سیکھنے والے طلبا کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کلام اصل ہے اور تحریر کلام کو محفوظ کرنے کا ایک آلہ ہے۔ لہٰذا زبان دانی کے معاملہ میں کسی بھی قسم کے مسئلہ کی صورت میں رجوع بہرحال اہلِ زبان کے کلام کی طرف ہو گا۔ یہ فطری اصول اردو سے ہی مخصوص نہیں بلکہ دنیا کی تمام زبانوں پر اس کا اطلاق کسی نہ کسی صورت میں ہوتا ہے۔
اردو جب ہندوستان کے مختلف النوع ثقافتی ماحول میں پروان چڑھ رہی تھی تو بولنے والوں نے لکھنے کی ضرورت پڑنے پر مسلمانوں کے سیاسی اور ثقافتی غلبے کے سبب عربی رسم الخظ سے کام لیا۔ حالانکہ دیوناگری رسم الخظ پہلے سے مقامی زبانوں کے لیے استعمال ہو رہا تھا اور وہ مقامی طور پر پیدا ہونے والی ایک زبان کے لیے حد درجہ موزوں بھی تھا۔ چنانچہ اردو کی جڑواں بہن ہندی اسی میں لکھی جاتی ہے۔ اب ہمارا رسم الخظ چونکہ عربی الاصل ہے اس لیے ہمارے لکھنے پڑھنے کے مسائل بھی ہندی والوں سے قدرے مختلف ہیں۔ وہ لفظ کو تحریر کرتے ہوئے بالکل ویسے لکھتے ہیں جیسے وہ بولا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ حالت نہیں۔ کسی لفظ کے حروف پورے بھی ہوں تو زیر زبر پیش کی عدم موجودگی میں لفظ کو ٹھیک ویسے ہی پڑھنا جیسے وہ اصل میں بولاجاتا ہے، کافی مشکل ہوتا ہے۔ایسی زبانیں دنیا میں کثرت سے پائی جاتی ہیں جن میں بول چال اور لکھنے کا ڈھنگ کم یا زیادہ مختلف ہے۔مثلاًعربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی وغیرہ۔
اس اعتبار سے حروف کی دو قسمیں ہیں:۔ ایک ملفوظی جو اصل میں بولنے والے بولتے ہیں۔ دوسرے مکتوبی یعنی جو تحریر میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ مکتوبی ،کتابت سے ہے جس کے معنی لکھنے کے ہیں۔
اردو میں زیادہ تر حروف اُسی طرح لکھے بھی جاتے ہیں جس طرح بولے جاتے ہیں۔ یعنی حروفِ ملفوظی اور مکتوبی ایک جیسے ہوتے ہیں۔ مثلاً:
دل، پاکستان، سلیم، تماشا، پری، سلامت وغیرہ۔
لیکن بعض الفاظ میں اردو اس اصل سے ذرا مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً ذیل کے الفاظ دو طرح سے لکھے گئے ہیں۔ اول اس طرح جس طرح ہم انھیں لکھتے ہیں اور دوم اس طرح جیسے بولتے ہیں:
شدت = شد + دت
آمادہ = اا + ما + دہ
بالکل = بل + کل
خواہش = خا + ہش
عبداللہ = عب + دل + لاہ
حتیٰ کہ = حت + تا + کہ
شدت میں ایک د لکھی لیکن بولی دو جاتی ہیں۔ بالکل میں ہم الف نہیں بولتے ہیں مگر لکھتے ہیں۔ اسی طرح باقی الفاظ اور دوسرے بہت سے لفظوں کا معاملہ ہے۔
وہ حروف جو بولے جائیں مگر لکھے نہ جائیں حروفِ ملفوظی غیرمکتوبی کہلاتے ہیں۔ ملفوظی اس لیے کہ اصل لفظ میں بولے جا رہے ہیں۔ غیرمکتوبی اس لیے کہ لکھے نہیں جا رہے۔ جیسے شدت کی دال اور لیلیٰ کا الف۔
ان کے برعکس وہ حروف جو بولے تو نہ جائیں مگر لکھے جاتے ہوں حروفِ مکتوبی غیرملفوظی کہلاتے ہیں۔ مکتوبی اس لیے کہ لکھے جا رہے ہیں اور غیرملفوظی اس لیے کہ اصل میں بولے نہیں جاتے۔ مثلاً بالکل کا الف اور خواہش کا واؤ۔
اس قسم کی زیادہ تر بےقاعدگیاں اردو میں عربی اور فارسی سے آئی ہیں۔ عربی میں جہاں الف لام ہو اور درمیان آئے وہاں الف نہیں بولا جاتا۔ جیسے انالحق کو ہم انل حق بولتے ہیں۔ اسی طرح فارسی الفاظ کی واؤ جب خے کے بعد آتی ہے تو اکثر نہیں بولی جاتی۔ جیسے خواب، خواہش، خود وغیرہ کو ہم خاب، خاہش اور خد بولتے ہیں۔
تشدید کا معاملہ البتہ ہندی الفاظ کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ چکر، رتی، سچا وغیرہ الفاظ عربی یا فارسی نہیں بلکہ مقامی ہیں مگر عربی رسم الخط ہونے کی وجہ سے جب ہم انھیں لکھتے ہیں تو چکر، رتّی اور سچا کی بالترتیب دو دو کاف، تے اور چے میں سے ایک ایک اڑا دیتے ہیں اور صرف ایک ایک لکھتے ہیں۔ حالانکہ بولتے دو ہی ہیں۔ چک کر، رت تی، سچ چا!
عروض میں کسی بھی لفظ کا وزن ہمیشہ اس طرح ماپا جاتا ہے جیسے وہ بولا جاتا ہے نہ کہ مکتوبی کی طرح۔ یعنی خود کا وزن بظاہر تین حرفی ہونے کے باوجود ہم اسے خُد سمجھ کر دو حرفی لفظ کے طور پر کریں گے۔ اسی طرح لٹو کا وزن بظاہر تین حرفی ہونے کے باوجود لٹ ٹو کے برابر لے کر چہار حرفی لفظ کے طور پر کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ الفاظ اپنے درست تلفظ میں اسی طرح بولے جاتے ہیں اور یہی بولا جانا اصل ہے نہ کہ لکھا جانا۔
درست تلفظ کے لیے اہلِ زبان، اہلِ علم اور لغات سے مدد لینی چاہیے۔ عوام کی بول چال لاکھ رائج ہو کبھی معیار نہیں بن سکتی۔ بالکل اسی طرح جیسے عام لوگ جتنے بھی زیادہ ہو جائیں بادشاہ نہیں کہلا سکتے۔ بادشاہ بادشاہ ہی ہے اور اہلِ علم اہلِ علم ہی ہیں۔
اُردو میں الف کی اقسام:
اردو میں الف چار طرح پر پایا جاتا ہے۔ مجرد، مہموز، ہمزہ اور ممدودہ۔
الفِ مجرد:
یہ سادہ الف ہے جو سب سے زیادہ پائی جانے والی شکل ہے۔ الفاظ کے شروع، وسط اور آخر تینوں میں آتا ہے۔
مثلاً شروع میں:: امید، احساس، اجر، اثر ، امنگ، اٹل وغیرہ
درمیان: راز، سلام، ناراض، عوام وغیرہ
آخر میں:: دعا، روا، پیدا، جینا، کھیلنا وغیرہ۔
شروع میں جب یہ الف آتا ہے تواردو زبان کے اس قاعدے کے مطابق کہ ہر لفظ کے پہلے حرف پر بالضرور حرکت ہوتی ہے یعنی الف ہمیشہ متحرک ہوتا ہے۔ امید میں اس پر پیش ہے، احساس میں زیر، اجر میں زبر۔ علیٰ ہٰذا القیاس۔
درمیان اور آخر ہر دو صورت میں یہ ساکن ہوتا ہے۔ اور پہلا ساکن یعنی مجزوم۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ الف اردو میں موقوف نہیں ہو سکتا۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ الف سے پہلے بھی کوئی ساکن حرف موجود ہو۔ یہ جب بھی ساکن کے طور پر آئے گا تو پہلا ساکن خود ہو گا۔ بعد میں چاہے جتنے مرضی ساکن یعنی موقوف حروف آ جائیں۔ جیسے راست میں الف رے کے بعد پہلا ساکن یعنی مجزوم ہے اور اس کے بعد سین اور تے دو ساکن یعنی موقوف آئے ہیں۔
الفِ مہموز:
یہ وہ الف ہے جو جرأت اور برأت جیسے الفاظ میں ملتا ہے۔ یہ اردو میں ہمیشہ کسی عربی الاصل لفظ کے درمیان ہی ملے گا اور اس پر زبر ہو گی۔ اس کے علاوہ اردو میں اس کی کوئی صورت نہیں۔
جرأت میں الف ساکن نہیں ہے بلکہ اس پر زبر ہے۔ ہم اس لفظ کے دو ٹکڑے کر کے اس بات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں:
جُر + اَت = جُرأت
اسی طرح برأت کا لفظ ہے جس کے معنی بری ہو جانے کے ہیں۔
مہموز کا مطلب ہے ہمزہ والا۔ یعنی وہ الف جس کے اوپر چھوٹا سا ہمزہ ہو۔
مدعا یہ کہ الفِ مہموز اردو زبان میں صرف کسی لفظ کے درمیان ہی آئے گا اور ہمیشہ اس پر زبر ہو گی۔ الفِ مہموز نہ ساکن ہو سکتا ہے اور نہ اس پر زیر یا پیش وغیرہ ہو سکتی ہے۔ ساکن ہو گا تو الفِ مجرد کی طرح لکھا جائے گا جسے ہم نے اوپر دیکھا۔ زیر یا پیش کی حرکت ہو گی تو ہمزہ کی صورت میں لکھا جائے گا جسے ہم آگے دیکھیں گے۔
ہمزہ:
ہمزہ دراصل الف کا قائم مقام ہے جو وہاں آتا ہے جہاں الف کی آواز کسی لفظ کے درمیان ہو اور اس پر زیر یا پیش ہو۔ ہم نے ابھی ابھی سیکھا کہ اگر درمیان کے الف پر زبر ہو گی تو اسے ہم الفِ مہموز کی صورت میں لکھیں گے۔ لیکن اگر زبر یا پیش ہو گی تو پھر وہاں ہمزہ لکھا جائے گا۔مثلاً:
قائم = قا + اِم
دائر = دا + اِر
مسئول = مس + اُول
رؤف = رَ + اُوف
گئی = گَ + اِی
رائے = را + اِے
مرکبِ اضافی میں اگر مضاف کے آخر میں الف یا واؤ ہو تو قاعدے کے مطابق زیر لگانے کی بجائے ہمزہ لکھ کر بڑی یے لکھ دیتے ہیں۔ جیسے:
روئے سخن = رُو + اے
دعائے خیر = دعا + اے
اگر ہائے مختفی یعنی چھوٹی گول ہ یا چھوٹی ی آخر میں ہو تو ہمزہ لکھ کر زیر دیتے ہیں۔ جیسے:
ہدیۂِ نعت = ہد + یہ + اے
گرمئِ بازار = گر + می + اے
البتہ اگر بڑی یے آخر میں آئے تو صرف ہمزہ کا اضافہ کرتے ہیں کیونکہ اضافت والی یے پہلے ہی سے موجود ہے۔ جیسے مئے ناب = مَ + اے
عربی میں جب الف موقوف ہوتا ہے تو اسے ہمزہ سے ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے ماء، شاء، انبیاء وغیرہ میں۔ اردو کے مستند تلفظ اور ٹکسالی لہجے میں، جیسا کہ اوپر ذکر گزر چکا ہے ، الف موقوف یعنی دوسرے ساکن کے طور پر کبھی نہیں آتا بلکہ ہمیشہ پہلا ساکن ہی ہوتا ہے اس لیے اردو انبیا، اولیا وغیرہ کو ہمزہ کے بغیرلکھا جاتا ہے۔ البتہ بعض عربی الاصل تراکیب میں اس کی یادگاریں باقی رہ گئی ہیں۔ جیسے: ان شاء اللہ، ماشاءاللہ وغیرہ۔
الفِ ممدودہ:
ممدودہ کے معنی ہیں کھینچا ہوا۔ مد کے معانی ہیں کھینچنا۔ الفِ ممدودہ وہ ہے جس پر مد یعنی کھنچاؤموجود ہو۔ یہ درحقیقت ایک الف نہیں بلکہ دو الف کا مجموعہ ہے۔
سا، کا، گا، لا، جا وغیرہ میں الف سے پہلے س، ک، گ، ل اور ج موجود ہیں جو متحرک ہیں اور دوسرا الف ہے جو ساکن ہے۔ اگر پہلا حرف بھی الف ہی ہو تو دو الف ہو جائیں گے جن میں سے پہلا متحرک اور دوسرا ساکن ہو گا۔ یہ الفِ ممدودہ ہے اور اسے الف پر مد ڈال کر ظاہر کرتے ہیں۔ یعنی: ا + ا = آ
اردو میں الفِ ممدودہ زیادہ تر الفاظ کے شروع میں آتا ہے۔ عربی الاصل مثالوں کے درمیان بھی دیکھا جا سکتا ہے۔البتہ آخر میں نہیں پایا جاتا۔ اس کا وزن بھی دو حروف کے برابر شمار کیا جاتا ہے نہ کہ ایک الف کے برابر۔
مثلاً: آج = اَ + ا + ج
یہ سہ حرفی لفظ ہے۔ یعنی تین حروف والا۔ پہلا الف متحرک، دوسرا مجزوم اور تیسرا جیم موقوف۔ فاع کے وزن پر۔
آغاز = ا+ ا+ غا + ز
یہ پنج حرفی لفظ ہے۔ مفعول کے وزن پر۔
عزت مآب جیسے الفاظ الفِ ممدودہ کے درمیان آنے کی مثال ہیں۔مآب = مَ + اَ + ا + ب
یہ فعول کے وزن پر چہار حرفی لفظ ہے۔
خلاصہ:
مدعا یہ کہ الف اردو میں اگر ساکن ہو تو درمیان یا آخر میں ہو گا اور ہمیشہ کسی حرکت کے بعد پہلا ساکن یعنی مجزوم ہی ہو گا۔ موقوف کبھی نہیں ہو سکتا۔ اس صورت میں اسے الفِ مجرد یا سادہ الف سے ظاہر کریں گے۔ اگر متحرک ہو گا اور لفظ کے شروع میں ہو گا تو اسے بھی سادہ ہی لکھا جائے گا۔ اگر کسی لفظ کے درمیان متحرک ہو گا تو زبر کی حرکت کے ساتھ الفِ مہموز یعنی ہمزہ والا الف لکھا جائےگا۔ پیش اور زیر کے ساتھ خود ہمزہ ڈال دیا جائے گا۔ آخر میں متحرک ہو ہی نہیں سکتا۔ دو الف اکٹھے آئیں گے تو انھیں الفِ ممدودہ کے ساتھ یعنی الف پر مد ڈال کر ظاہر کیا جائے گا۔
تشدید۔ غنہ اور مخلوط حرف زبان کے اصول اس کی تحریر نہیں بلکہ کلام کی بنیاد پر طے پاتی ہیں۔ بنیادی طور پر زبان کلام ہی ہے جبکہ تحریر کلام کو ظاہر اور محفوظ کرنے کا ایک طریقِ کار ہے۔ یہی اصل عروض میں اپنی پوری قوت کے ساتھ عمل پیرا ہوتی ہے۔
گھ، پھ، چھ جیسے حروف پر غور کیجیے۔ یہ لکھے تو دو حروف کو ملا کر جاتے ہیں مگر ہم انھیں بولتے الگ الگ نہیں۔ یعنی گھ میں گ ھ کی ادائیگی الگ الگ نہیں ہوتی بلکہ اکٹھا گھ بولا جاتا ہے۔ لہٰذا گھ ایک حرف شمار ہو گا، دو نہیں۔
یہی قاعدہ نون غنہ کا ہے۔ اسے لکھا تو جاتا ہے لیکن بولنے میں وہ کوئی الگ آواز نہیں دیتا بلکہ صرف اصل آواز کو ناک میں ادا کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً جا اور جاں *دونوں میں ایک ہی آواز نکل رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ “جاں” کو ناک میں بولا جاتا ہے اسی کو غنہ کہتے ہیں۔ اضافی نون نہیں لگایا جاتا بلکہ ں کی علامت صرف اس لیے ہے کہ ناک میں بولنا ظاہر ہو جائے اور لوگ اس لفظ کو “جا” نہ سمجھ لیں۔
تشدید کا بھی یہی معاملہ ہے۔ شدت میں صرف ایک”د” لکھی جاتی ہے لیکن بولنے میں یوں ہوتا ہے: شِد دَت یعنی دال پر زور دیتے ہیں۔ یعنی د لکھا ایک بار جاتا ہے لیکن بولنے میں دو دال کے برابر ہو جاتا ہے۔ سو لفظ شدت میں ایک نہیں بلکہ دو دال ہی شمار کیے جاتے ہیں۔
علیٰ ھٰذالاقیاس لفظ بالکل، فی الفور، خود اور خواہش جیسے الفاظ کا معاملہ ہے۔ انہیں بل کل، فل فور، خد اور خاہش بولا جاتا ہے۔ اس لیے ان کا وزن اسی طرح ماپا جائے گا نہ کہ ان حروف کی بنیاد پر جو ان میں خواہ مخواہ موجود ہیں۔
یاد رکھنا چاہیے کہ گو زبان اور شاعری کا مدار بولے جانے پر ہے مگر ہر کسی کے بولنے پر بھی نہیں۔ یعنی اگر کوئی لفظ عوام غلط بولتے ہیں تو صرف اس وجہ سے کہ بولا جاتا ہے اس کا وہ وزن یا اصول نہیں سمجھا جائے گا۔ اس کی بجائے اردو میں معیار ان شائستہ، پڑھے لکھے اور مہذب لوگوں کا لہجہ اور تلفظ ہے جو زبان و ادب سے ایک تعلق اور اس کے بارے میں حساسیت رکھتے ہوں۔ پس الفاظ کے تلفظ اردو کی مستند لغات سے معلوم کیے جا سکتے ہیں۔
دوحرفی لفظ:
علمِ عروض شعر کی موزونیت یعنی افاعیل و وزن پر بحث کرتا ہے۔ شعر کا وزن الفاظ کے معیاری تلفظ میں پائی جانے والی حرکات و سکنات سے ماپا جاتا ہے۔ دیکھنا یہ چاہیےحرکات و سکنات کیونکر کسی لفظ کے وزن کا تعین کرتی ہیں؟
فی الحال یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ تمام حرکات آپس میں برابر ہیں اور تمام سکنات آپس میں برابر ہیں۔ یعنی یہ کہ زیر ہو، زبر ہو یا پیش۔ وزن پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر حرکت درکار ہے تو کوئی بھی حرکت یہ ضرورت پوری کر سکتی ہے۔
گھ، پھ، چھ جیسے حروف پر غور کیجیے۔ یہ لکھے تو دو حروف کو ملا کر جاتے ہیں مگر ہم انھیں بولتے الگ الگ نہیں۔ یعنی گھ میں گ ھ کی ادائیگی الگ الگ نہیں ہوتی بلکہ اکٹھا گھ بولا جاتا ہے۔ لہٰذا گھ ایک حرف شمار ہو گا، دو نہیں۔
سکون کا معاملہ بھی کم و بیش یہی ہے بس وقف کی جگہ جزم اور جزم کی جگہ وقف نہیں چل سکتا گو دونوں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اور زیر زبر پیش کی طرح مختلف آواز نہیں دیتے بلکہ ان میں فرق ان کی ترتیب کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ لہٰٖذا جب سکون کا مقام ہو تو سکون چاہیے ہو گا مگر ایک سکون ہو گا تو اسے جزم کہیں گے۔ کیونکہ پہلے سکون کو جزم ہی کہا جاتا ہے۔ دوسرا سکون ہو گا تو ہے تو وہ بھی سکون مگر اسے وقف کہیں گے۔گویا وقف کی جگہ جزم آسکتا ہے کیونکہ جزم وقف کی جگہ آئے گا تو جزم نہیں رہے گا بلکہ وقف کہلائے گا۔
پس وزن کا پہلا عملی اصول یہ ہے کہ حرکت کے برابر حرکت ہونی چاہیے اور سکون کے برابر سکون۔ یہ ہو جائے تو باقی کسی معاملے سے ہمیں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اب ذرا کچھ مثالیں دیکھیے:لفظ ہے دِل۔
اس میں د پر زیر ہے۔ یعنی حرکت۔
ل پر کچھ نہیں۔ یعنی لام ساکن ہے۔
یعنی ایک حرکت اور اس کے بعد سکون۔
تو وزن کیا ہوا اس کا؟
اس وزن کا پیمانہ یا باٹ لفظ فَع ہے۔ یعنی خبر کا وزن فَع ہے۔ یہ دکاندار کے باٹ ہی کی طرح ہے جس سے وہ کسی چیز کو تولتا ہے۔ اب اگر کوئی لفظ دو حروف پر مشتمل ہو اور ان میں سے پہلا متحرک ہو اور دوسرا ساکن تو ہم کہیں گے کہ اس کا وزن فع کے برابر ہے۔
*کچھ مثالیں دیکھتے ہیں۔ چَل۔
اس میں چ پر زبر ہے۔ یعنی حرکت ہے جبکہ ل پر کچھ نہیں۔ یعنی سکون ہے۔*
ایک حرکت، ایک سکون۔
وزن کیا ہوا؟ فَع۔
زیر زبر پیش میں سےحرکت کوئی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کوئی بھی حرکت ہو تو وہ حرکت کے مقابل آ جائے گی۔ اسی طرح سکون کے مقابلے پر سکون ہونا ضروری ہے۔
دوسری مثال ہے غم۔
اس میں غ پر زبر ہے اور م ساکن ہے۔ یہ بھی فع کے وزن پر پورا اترا۔
تیسری مثال۔ تُو۔
اس میں ت پر پیش ہے اور و پر کچھ نہیں۔ نہ زیر نہ زبر نہ پیش۔ تو و ساکن ہوا۔ وزن برابر ہو گیا فَع کے۔
سہ حرفی لفظ:
تین حروف والے الفا ظ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جن کا دوسرا حرف متحرک ہو یا دوسرے وہ جن میں دوسرا حرف ساکن ہو۔ پہلا تو لازماً متحرک ہوتا ہے لیکن تیسرا لازماً ساکن۔
پہلی صورت:
وہ سہ حرفی الفاظ جن کا دوسرا حرف متحرک ہو انھیں فَعَل کے باٹ یا پیمانے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ یہ قواعد یعنی گرامر والا فِعل نہیں ہے جو ایسا لفظ ہوتا ہے جس میں کوئی نہ کوئی زمانہ پایا جائے۔ بلکہ یہ فَعَل ہے۔ آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ یہ بھی سہ حرفی ہے اور اس کے پہلے دو حروف پر زبر ہے۔ یعنی دوسرا حرف متحرک ہے۔ اسی لیے ہم نے اسے اس قسم کے الفاظ کا پیمانہ بنایا ہے۔ اس کی مثالیں دیکھیے۔ خَبَر، قَلَم، خِرَد، وُضُو، دُعَا، چَلو، اُٹھے، نَئی۔
دوسری صورت:
دوسری قسم سہ حرفی الفاظ کی وہ ہے جس میں دوسرا حرف ساکن ہو۔ ان کا وزن فاع مقرر کیا گیا ہے۔ فاع میں بھی صرف ف پر زبر ہے اور باقی دونوں حروف ساکن ہیں۔اس کی مثالیں حسبِ ذیل ہیں:دُور، شام، صَبر، حُسن، کھیل، شَوق، دَرد، دُھوپ۔ وغیرہ۔
چہارحرفی لفظ:
چہار حرفی الفاظ کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔
پہلی صورت:
پہلی وہ صورت ہے جس میں پہلے دو حروف متحرک ہوں گے اور اگلے دو ساکن۔ پہلا ساکن مجزوم جبکہ دوسرا موقوف کہلاتا ہےیعنی آج کے لفظ میں دو حروف متحرک، ایک مجزوم اور ایک موقوف ہے۔ان کا پیمانہ فَعُول ہے۔ فعول میں بھی چار حروف ہیں۔ پہلے پر زبر، دوسرے پر پیش اور اگلے دو پر کوئی حرکت نہیں۔ فعول کے وزن پر آنے والے الفاظ کی مثالیں دیکھیے: کلام، غریب، دلیر، حضور، نقاب، مریض، دکان، عروض، قمیص، جہاز وغیرہ۔
دوسری صورت:
چہار حرفی الفاظ کی دوسری صورت وہ ہے جس میں دوسرا حرف ساکن اور تیسرا متحرک ہو۔ اس صورت کا پیمانہ یا وزن فِعلُن مقرر کیا گیا ہے۔ فعلن کے وزن پر آنے والے الفاظ کی مثالیں دیکھیے: جانا، روتے، صفدر، ساحل، تیرا، مجمع، باہو، خوشبو وغیرہ۔
چہار حرفی الفاظ کی یہ قسم درحقیقت دوحرفی الفاظ کی ہی تکرار ہے۔ یاد رہے کہ دو حرفی الفاظ جیسے چل، سن، لے وغیرہ ہمیشہ اُردو میں پہلا حرف متحرک اور دوسرا ساکن رکھتے ہیں اور ان کا وزن فع ہوتا ہے۔ اگر فع کی دو مرتبہ تکرار کر دی جائے تو یہ چہار حرفی وزن فعلن بن جاتا ہے۔ جیسے: چل چل، کھا لے، پی جا، ٹھک ٹھک وغیرہ۔
پنج حرفی لفظ:
پہلی صورت:
*پانچ حروف والے لفظ میں پہلا متحرک، دوسرا ساکن، تیسرا متحرک، چوتھا ساکن، پانچواں پھر ساکن ہوتا ہے۔ اس کا وزن مَفعُول ہے یعنی پانچ حروف۔
پانچواں حرف چونکہ ترتیب میں چوتھے حرف کے بعد مسلسل دوسرا ساکن بھی ہے اس لیے موقوف بھی کہلاتا ہے۔
اس وزن کے الفاظ یہ ہیں: تعبیر، افکار، ایجاد، شمشان، آواز، زنبیل، راحیل، فاروق، اوزان، دیوار، دراصل، وغیرہ۔*
آپ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ مفعول دو ایسے اوزان سے مل کر بنا ہے جنھیں ہم پہلے دو حرفی اور سہ حرفی الفاظ کی مشقوں میں بتایا جا چکا ہے۔ یعنی فع اور فاع۔ فع + فاع = مفعول
دوسری صورت:
پنج حرفی الفاظ کی دوسری قسم کا وزن ہے فَعُولُن۔
پانچ حروف۔ پہلے دو متحرک، تیسرا ساکن، چوتھا متحرک، پانچواں ساکن۔ گویا یہ دو اوزان فَعَل اور فَع کا مجموعہ ہے۔
فَعَل + فَع = فَعُولُن
مثالیں ملاحظہ فرمائیے: سلامت، غریبی، نواسا، مقدّر، خلیفہ، نشانہ، ٹھکانا، عجائب، اقامہ، وغیرہ وغیرہ۔
تیسری صورت::
پنج حرفی الفاظ کی تیسری قسم کا وزن فاعِلُن ہے۔ یہ بھی فَعَل اور فَع کا مجموعہ ہی ہے فرق صرف ترتیب میں ہے۔ اس وزن میں فع پہلے آتا ہے اور فعل بعد میں۔ فَع + فَعَل = فاعِلُن
مثالیں دیکھیے: دوستی، آرزو، حوصلہ، مصلحت، ٹھیکرا، چابیاں وغیرہ وغیرہ۔
Leave a Reply