تازہ ترین / Latest
  Tuesday, December 24th 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

عشرت تو سیڑھیوں سے گری تھی

Articles , Snippets , / Thursday, November 14th, 2024

آج دل رو رہا ہے روح پریشان ہے اور اشکوں کی ایک مستقل جھڑی تو وہ ہے جو جھرنوں کی مانند میری آنکھوں سے رواں ہے دوسری جھڑی وہ ہے جو گولوں کی صورت میں میرے گلے میں پھندے پہ پھندے ڈال کر میری سانسوں کو روک رہی ہے. میں دکھے دل اور سوجے پپوٹوں کے ساتھ وہی گھسا پھٹا سوال کرنے پہ مجبور ہوں کہ یہ دنیا ایسی کیوں ہے دنیا کے تیر ستم دو مختلف جنسوں پہ مختلف قسم کی شدت سے کیوں برستے ہیں.
وفا پہ میری سوال کیوں ہیں
اب چاہتوں پہ زوال کیوں ہیں
کیا گھر کے بننے بگڑنے میں صرف عورت ہی کےخون کی بلی چڑھائی جاتی رہے گی کیا عورت ہی کوہر گام پہ قربانی کا بکرا بنایا جاتا رہے گا؟
کیوں؟
کیوں؟
آخر کیوں؟
اور آخر کب تک
یہ ننھی منھی کلیاں جن کے ہونے سے کاینات قوس قزح کی طرح خوبصورت ہے جن کی قلقاریاں، کسی مندر کی نقرءی گھنٹیوں کی طرح کانوں میں رس گھولتی ہیں.
کانوں میں رس گھولتی ہیں
جب جب بیٹیاں بولتی ہیں
مست ادایں مست نگاہیں
قوس قزح کے رنگوں کو اوڑھ کے
پریوں کے دیس میں جا کے
بیٹیاں روگ جدای دے کر
نیے دیس میں جھومتی ہیں
روتے روتے ہنستی ہیں
یہ کبھی نہ تھکتی ہیں
کانوں میں رس گھولتی ہیں
کیسے ہنستی بولتی ہیں
تو بیٹیاں سچ مچ اللہ پاک کی عطا کردہ رحمتوں میں سے سب سے بڑی رحمت ہیں اور بیٹے شادی ہوتے ہی پراے ہو جاتے ہیں اور بیٹیاں آخری سانسوں تک اپنے والدین کی رہتی ہیں والدین کے بارے میں سوچتی ہیں بھلے رہتی کوسوں دور ہی کیوں نہ ہوں.
پراے دیسوں میں جانے والے
سدا ہی اپنے گھر میں رہے تھے
میرا تمام پڑھنے والوں سے سوال ہے کہ بیٹی کا گھر ہوتا کون سا ہے
وہ، جہاں وہ پیدا ہوی جو اصل میں اس کے باپ کا گھر تھا. وہ جہاں وہ شادی کے بعد رخصت ہو کر گءی یعنی اس کے شوھر کا گھریا پھر اس کے بیٹے کا گھر. سچ میں گھر کی اینٹ سے اینٹ جوڑ کر اسے سجا نے سنوارنے والی کا تو کوی گھر ہوتا ہی نہیں.
اور مجھے اپنی نظم یاد آ جاتی ہے کہ اے حوا کی بیٹی
نصیبوں میں تیرے
کیوں دھکوں پہ دھکے
کیوں ٹھوکر پہ ٹھوکر
سدا تیری بولی لگای گءی
تو اپنی رہی نہ پرای رہی
پیدایش کے وقت سے دایا کا حق مارنے سے شروع ہونے والی کہانی بیٹی کی آخری سانسوں تک اس حوا کی بیٹی کو خون کے تلخ گھونٹ پینے پہ مجبور در مجبور کرتی رہتی ہے اور یہ مظلوم و بےبس جانور صرف اور صرف اپنے گھر گھرانے اور آبا و اجداد کے شملے کو اونچا رکھنے کے لیے ہر ذلت کا لیپ کسی اچھے برانڈ کے بلش آن کی طرح اپنے منہ پہ ہنسی خوشی کرتی اور کرواتی رہتی ہے کبھی وراثت میں اس کا حق مارا جاتا ہے اور کبھی حقوق کی ہاری ہوی جنگ اس حوا کی بیٹی کے ناتواں کندھوں پہ مسلط کر دی جاتی ہے کبھی اسے غیرت کے نام پہ قتل کر دیا جاتا ہے اور کبھی خون بہا میں دیت کے طور پہ اس عورت، ماں، بہن اور بیٹی نامی نمونے کو قربان کر کے دشمنوں کو رام کرنے کء سعی ناتمام کی جاتی ہے. غیرت کے نام پہ آج تک مرد تو کوی قتل ہوا نہیں اور عورت غیرت کے نام پہ گاجر مولی کی طرح کٹ مر رہی ہے.
کب سماج بدلے گا
یہ حساب بدلے گا
مردوں کے جہان میں
بے بسی کی تان میں
عورت بھی کے گی سانس. عورت بھی جی پاے گی
ہمارے ہمسائے میں چند ماہ قبل مرزا حسین افضل تشریف لاے چھوٹا سا کنبہ تھا میاں بیوی اور بیٹا بہو. بہو کم گو تھی اپنےکام سے کام رکھنے والی لیکن ایک دن علی الصبح مرزا صاحب کے گھر میں بے ھنگ
شور کیا شروع ہوا لوگو ں کا جم غفیر مرزا صاحب کے گھر امڈ آیا ایمبولینس منگوائی گءی قصہ صرف اتنا سا تھا کہ ان کیاکلوتی اور لاڈلی بہو جو کہ دو ماہ کے حمل سے بھی تھی سیڑھیوں سے پھسل کے لڑھکتی ہوی کءی سیڑھیوں سے آڑھی ترچھی ہو کے گری تھی اسے متعدد چوٹیں آی تھیں بروقت
طبی امداد بھی کارآمد نہ ہوسکی دو جانیں گییں
اناللہ وانا الیہ راجعون
اور عشرت کی ماں دوہاییاں دیتی رہ گءی میری پیاری عشرت تجھے کیا جلدی تھی
ابھی تیرے سہرے کے تھے پھول تازہ
یہ کیا کہ یہاں سے وہاں اتنی جلدی
اور عشرت کے ساس سسر پولے منہ سے یہ کہہ دیتے تھے ہوا تو کچھ بھی نہیں عشرت تو سیڑھیوں سے اتر رہی تھی کہ اس کا پاوں رپٹ گیا اور وہ سیڑھیوں سے پھسل کے دماغ کی چوٹ کھا
کے جانبر نہ ہوسکی درحقیقت ایسا کچھ نہ تھا عشرت اپنے سسرالیوں کی توقعات کے مطابق جہیز نہ لا سکنے کی پاداش میں بے رحمی سے مار دی گءی تھی اور ایسا ظلم ناحق نجانے کتنی بیٹیوں کے ساتھ ہو رہا ہے.
میں بنت حوا
سدا ہی ستای جلای گءی
میں ہنستی ہوی بھی رلای گءی
میرے جینے کی آس چھینی گءی
وقت سے ہی پہلے بلای گءی
تیزابوں سے منہ کو جلایا گیا
مجھے کانٹوں پہ بھی چلایا گیا
شعور کی اتنی سیڑھیاں چڑھنے کے باوجود بھی انسان آج بھی دور جہالت ہی کا باشندہ ہے بنت حوا کے ہر ہر خوشے کی خیر
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gnail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International