تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
فرمان رسول کریم ؐ ہے ”علم حاصل کرنا ہر مسلمان( مرد و عورت) پر فرض ہے“علم کے معنی جاننے کے ہیں۔نافع علم کی اہمیت سے ہی زندگی کے موسم میں فکری اور شعوری انقلاب رونما ہوتا ہے ۔علم چونکہ روشنی اور جہالت اندھیرا ہے اس کے تناظر میں عہد رفتہ کے دریچوں میں جھانک کر دیکھا جاۓ تو ایک انمول تاریخ موجود ہے۔جس کے بہتے دریا کا رخ پیغمبر انسانیت نے منشور انسانیت پیش کر کے پھیر دیا بقول شاعر:-
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
(الطاف حسین حالی)
تاریخ گواہ ہے پہلی وحی کا آغاز ہی چونکہ(اقراء) سے ہوا تو رحمت الٰہی کا ایک سمندر بھٹکتی انسانیت کو اپنے دامن میں لینے کے لیے رواں دواں ہوا۔عرب کا روشن ضمیر آقا غار حرا کی تاریکیوں میں تلاش حقیقت کے لیے غرق تھا تو اللہ کریم کی طرف سے رشدوہدایت انسانیت کے لیے تحفہ میں ملی۔نٸی زندگی کا آغاز ہونے سے محبت بھری ہواٸیں چل پڑیں اور حکمت کی باد نسیم سے بہار کے آثار نمایاں ہوۓ۔مخزن علم قرآن مجید کا نزول معجزہ رب کاٸنات ہے۔انسانیت کس حال میں تھی یہ بھی تاریخ کا المناک باب ہے جسے بھلانے سے بھی انسان نہیں بھول سکتا کیونکہ اس میں انسانیت نفس امارہ کی گرفت میں تھی اور حیات انسانی کس قدر سماجی اور اخلاقی زوال کا شکار تھی اور مذہبی لحاظ سے تو بہت پستی کا شکار تھی۔خانہ خدا بت کدہ تھا۔جب اللہ کی رحمت جوش میں آٸی تو یکا یک تبدیلی کی سہانی گھڑیوں کا آغاز ہوا۔حق کی مشعل روشن ہوٸی اور کاٸنات میں عجب رونق پیدا ہونے سے حیات کے تقاضے بھی بدل گٸے۔آپؐ چونکہ رحمت عالم تھے اس لیے جہاں جہالت بوجھ تھی ۔انسانیت کو قعر مذلت سے نکالنے کی تمنا آپ کو بیتاب رکھتی تھی۔تاریخ کے تلخ واقعات سے یہی حقاٸق سامنے آتے ہیں کہ مکی زندگی میں آزماٸشوں کا سامنا کیا اور صبر کی راہ اختیار فرماٸی اور فرزندان اسلام کو بھی یہی ہدایت فرماٸی۔ایک ہی تمنا دل میں تھی(علم۔۔رواں رہے شوق کا دریا)یعنی علم کی تحقیق اور جستجو کے لیے التجاٸیں کیں اور کمر بستہ بھی رہے۔صفہ عظیم درسگاہ اور بھی علم کے مراکز اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ آپ کی محنت علم نافع جس سے حیات انسانی میں بہتری پیدا ہو اس ضمن میں شاعر مشرق کی نظم سے ایک شعر بہت اہمیت رکھتا ہے۔
زندگی ہو میری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب
اس شعر میں (علم۔رواں رہے شوق کا دریا)کی تمنا کا اظہار ہے۔یہی التجا دل کے دریچوں سے نکلتی ہے اور مٶثر ہوتی ہے۔زندگی کے چمنستان میں اگر خوبصورتی پیدا ہوتی ہے تو علم کی شمع سے۔یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ سیرت سازی اور کردار سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس سے رونق حیات میں اضافہ ہوتا ہے اور اسلوب زندگی کا قرینہ بھی جنم لیتا ہے۔گلشن حیات میں الفت اور محبت کے پھول اچھے اوصاف سے کھلتے ہیں اور اچھے اوصاف علم کے نور سے پیدا ہوتے ہیں۔زندگی کے شبستان میں سحر تازہ٬حرف تمنا اور حرف آرزو کے گل مہکتے ہیں۔کاٸنات کا حسن بھی تو انسان ہی کے لیے ہے۔پاکیزہ اوصاف اور اچھے اخلاق و عادات تعلیم وتربیت سے پیدا ہوتی ہیں۔شرم و حیاء ٬سادگی اور اخلاص کے آبگینے بھی علم سے چمکدار ہوتے ہیں۔دوسروں کے لیے نیک تمناٸیں اور نیکی کا رجحان بھی علم سے پیدا ہوتا ہے۔اچھی خوبیاں اور صفات سے متصف انسان سماج اور معاشرہ کی رونق میں اضافہ کرتے اور پیام حیات کا دلکش نمونہ پیش کرتے ہیں۔بنجر زمین میں پھول دار پودے نہیں اگتے بلکہ جھاڑیاں ہی پیدا ہوتی ہیں۔صحراۓ زندگی میں علم کی برسات سے خوشبو پھیلتی ہے۔جس سے زندگی کا روپ خوشنما معلوم ہوتا ہے۔فکروخیال میں روانی ٬عقل و شعور میں پختگی٬سب علم کی برکات سے ممکن ہے۔زندگی کے بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت بھی علم سے پیدا ہوتی ہے اور آسانیاں تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔کامیاب زندگی کا سورج اسی وقت طلوع ہوتا ہے جب علم حاصل کرنے کی لگن دلوں میں پیدا ہو۔ماہرین کے مطابق اخلاق و عادات میں تبدیلی کا پیش خیمہ بھی تعلیم وتربیت ہے۔اس ضمن میں ماں کی تربیت بہت اہمیت رکھتی ہے۔آٸینہ کردار میں چمک علم کے زیور سے پیدا ہوتی ہےجس کی روح تو ”اسوہ حسنہ “ہے۔جذبہ قناعت و توکل کی خوبصورتی بھی علم کی برکات سے ہے۔علم کی معرفت سے دل کی تاریکیوں میں عجب رونق پیدا ہوتی ہے۔عمل کی بنیاد علم ہے۔قدرت کی عنایات کس قدر وسیع ہیں جو شمار سے بھی بہت زیادہ ہیں۔وقت کی قدروقیمت کا احساس ٬عمدہ اخلاق کی زینت اور کردار کا حسن علم کی رعناٸی سے دلکش ہوتا ہے۔
تحریر۔فخرالزمان سرحدی
گاٶں ڈِنگ ٬ڈاک خانہ ریحانہ
تحصیل و ضلع ہری پور
رابطہ۔03123377085
Leave a Reply