rki.news
تبصرہ:شازی عالم شازی
ایک ایسے وقت میں جب آپ تنہا ہوں، وقت کی چال تھم سی جائے، اور ہاتھ میں کوئی خوبصورت کتاب آجائے تو میرے نزدیک اس لمحے کی لطافت کا کوئی بدل نہیں ہے ہم بھی ایک دن اسی ہی خاموش ساعت میں بیٹھے تھے کہ نظر اس کتاب پر پڑی جو “عمیر علی انجم صاحب” نے بہت محبت سے ہمیں تحفے میں دی تھی کتاب کا نام ہے “کوئی دیکھتا”۔۔۔
“کوئی دیکھتا” صرف ایک شعری مجموعہ نہیں بلکہ ایک احساس کا سفر ہے، جو دل کے کرب سے معاشرت کی سچائیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اور جب اس کتاب پر افتخار عارف، امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید اور وصی شاہ جیسے زیرک اور بڑے نام اپنی تحریری رائے دے چکے ہوں، تو پھر تو مجھ جیسی “طفل مکتب کے لیے بات کہنا مشکل ضرور ہو جاتا ہے لیکن ادب کا حسن یہی ہے کہ ہر قاری اپنے ذوق کے مطابق شاعر کی روح سے مکالمہ کرتا ہے اور یہی مکالمہ اُس کتاب کا اصل اور جوابی تحفہ ہے جو عمیر انجم نے ہمیں کتاب کی صورت دیا تھا۔۔
کتاب کا آغاز حمدِ باری تعالیٰ سے ہوتا ہے سادہ مگر روح کو چھو لینے والے الفاظ میں شاعر اپنی عاجزی اور خالق سے وابستگی کا اظہار کرتا ہے
“عطا کر دے ہمیں رحمت کی چھایا
اے خلاقِ دو عالم اے خدایا
اگائے تو نے ہی پھل پھول سارے
تری تخلیق ہیں منظر یہ سارے”
بظاہر بہت سادہ مگر یہ اشعار شاعر کے باطن میں موجود شکر گزاری اور فطرت کی لطافت سے اس کے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں،اس کے فوراً بعد نعت آتی ہے عشقِ رسولؐ میں ڈوبی ہوئی، سادگی میں گہرائی لیے ہوئے دوبند دیکھیں۔۔
“دو جہاں ہیں تیرے اجالے
اے حبیبِ خدا کملی والے
رنگِ رحمت کے ہر شے میں بھر کے
اور یہ سارے جہاں خلق کر کے”
اور پھر وہ قطعہ جو ایمان کی حرارت سے بھرا ہوا ہے ۔۔۔
“کرم کا مجھ پہ عجب سلسلہ خدا نے کیا
دعا سے پہلے ہی مجھ کو عطا خدا نے کیا
حبیب اپنا عطا کر کے ہم غریبوں کو
زمین پہ سب سے بڑا معجزہ خدا نے کیا”
یہاں شاعر محض نعت نہیں کہہ رہا، بلکہ وہ ایک عاشق کی طرح اپنی عاجزی اور عطا کی عظمت کو ایک ساتھ بیان کر رہا ہے پھر جب ہم کتاب کے اگلے حصے میں داخل ہوتے ہیں تو ہمیں محبت، ہجر، یاد، اور خود آگاہی کے کئی رنگ نظر آتے ہیں۔ شاعر کے اشعار میں سوز بھی ہے اور وقار بھی، غم کی لطافت کے ساتھ ایک وقار، جیسے کوئی دل گرفتہ شخص خود سے بات کر رہا ہو
”فشارِ ہجر میں اتنا خیال بھی کرتا
دیئے تھے زخم تو پھر اندمال بھی کرتا
چلن جفاؤں کا سیکھا نہیں، وگرنہ تو
میں زندگی میں کبھی یہ کمال بھی کرتا”
اور پھر وہ اشعار جو خود اس کتاب کے عنوان “کوئی دیکھتا” سے بندھے ہوئے ہیں۔۔
”تجھے کیا کہوں، مجھے خود خبر نہ ہو سکی
کہاں اپنے آپ کو کھو دیا کوئی دیکھتا
کسی دوسرے کا وہ ہو گیا، میں کھڑا رہا
مری بے بسی مرا حوصلہ کوئی دیکھتا”
یہ اشعار عشق کی بے بسی اور انسان کے کھوئے ہونے کا احساس بخوبی اجاگر کرتے ہیں
عمیر علی انجم کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ محض عاشقانہ لہجے کے شاعر نہیں ان کی شاعری میں عدل، انصاف، اور معاشرتی شعور کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں، دلیل دیتے ہیں اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں:
”عدل و انصاف کے معیار کہاں جائیں گے
آدمیت کے پرستار کہاں جائیں گے
جب عدالت سے بھی انصاف نہ مل پائے گا
پھر صداقت کے طلبگار کہاں جائیں گے”
اور اسی شعور کو مزید شدت سے بیان کرتے ہیں:
”مجھ پہ دشمن کوئی الزام تو لگا سکے گا
میرے کردار پہ انگلی نہیں اٹھا سکے گا
جو جبر کرنے پہ فائز ہیں ان کو موت آ جائے
نظامِ عدل تبھی اس وطن میں آ سکے گا”
یہاں شاعر احتجاج نہیں، شعور پیش کر رہا ہے ایک باوقار، باشعور شہری کی آواز جو اپنی زمین سے مایوس نہیں بلکہ بہتر ہونے کی امید رکھتا ہے کبھی وہ تقدیر کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہیں تو کہتے ہیں۔۔۔
“تقدیر کے لکھے کو مٹانے سے رہا میں
اندھوں کو مناظر تو دکھانے سے رہا میں
بستی کے وسائل پہ قابض جو ہیں لٹیرے
ان مردہ ضمیروں کو جگانے سے رہا میں”
اور کہیں وہ سچائی کے اٹل ہونے پر یقین رکھتے ہیں…
“ہم نے تو حقیقت لکھنی ہے، سچائی کا ایک کردار ہیں ہم
تم لاکھ سزائیں دو ہم کو، مرنے کے لیے تیار ہیں ہم”
پھر اچانک سے ان کے مزاج کی فضا بدل جاتی ہےاور شاعر واپس دل کے نازک حصے میں آتا ہے:
“میری سنگت کا وہ ہر ایک لمحہ یاد کرتی ہے
سنا ہے وہ میرے بازوؤں کا تکیہ یاد کرتی ہے”
“کچھ بھی باقی نہیں تھا کہنے کو
کتنے خاموش ہم جدا ہوئے تھے”
“دل تیرے جانے سے ویران بھی ہو سکتا ہے
لیکن اس میں ترا نقصان بھی ہو سکتا ہے
میں اگر زخمِ دلِ زار دکھا دوں تجھ کو
میرے دشمن تو پریشان بھی ہو سکتا ہے”
یہاں شاعر کا لہجہ ایک دم سے ذاتی، نرم، اور انسانی ہو جاتا ہے جیسے نظم اور غزل ایک دوسرے میں تحلیل ہو رہی ہوں،
اور پھر نظمیں “بچپن کا ایک دن مجھے ادھار چاہیے”، “ہمیں گونگا بہرا مت سمجھو”، “بس تھوڑی دیر ہی باقی ہے” یہ سب عنوانات ہی اس بات کا ثبوت ہیں کہ شاعر کا وجدان صرف رومانی یا مذہبی نہیں، بلکہ زمانی اور معاشرتی دونوں حوالوں سے بیدار ہے،کتاب کے آخر میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مختصر مگر خوبصورت نوٹ یوں موجود ہے۔۔
“چھوٹے مصروں میں بڑی بات کہنے والا شاعر”
اور واقعی، یہ تعریف عمیر علی انجم کی شاعری پر پوری اترتی ہے۔ وہ کم لفظوں میں احساس کی پوری دنیا بسا دیتے ہیں مختصراً “کوئی دیکھتا” ایک ایسی کتاب ہے جو قاری کو اس محبت سے گھیر لیتی ہے، اس کے اندر کے انسان سے بات کرتی ہے، اور اسے اس کے اپنے سوالوں میں چھوڑ دیتی ہے عمیر علی انجم نے اپنے لہجے میں سلاست، سوچ میں گہرائی، اور اظہار میں راونی اور اسلاف سے ایمانداری دکھائی ہے۔
یہ وہ کتاب ہے جو اگر کسی تنہا لمحے میں ہاتھ لگ جائے تو شاید اس لمحے سے خوبصورت کوئی لمحہ دنیا میں نہ ہو
                                     
                                    
Leave a Reply