از قلم مریم خضر
آج بائیسویں صدی میں اگر دیکھا جائے کہ ہم اپنے دین کو کتنا follow کرتے ہیں ہم اپنے دین کو کتنا اپنی زندگی میں لاگو کرتے ہیں تو ہم با عمل ہونے سے زیادہ بے عمل ہیں با علم ہونے سے زیادہ لا علمی کا اظہار کرتے ہیں
اگر ہم با عمل انسان کو دیکھیں تو کہیں نہ کہیں خود کو اپنے خالق سے جوڑنے کی اسلام کی تعلیمات پہ عمل پیرا ہونے کے لیے کوشاں رہتے ہیں لیکن بے عمل انسان بس یونہی لغویات میں پڑا رہتا ہے
آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں جہاں کسی انسان کے پاس وقت نہیں ہے ہر انسان کہیں نہ کہیں فضول قسم کی سرگرمیوں کا وقت ہے لیکن نماز کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا اسلام کی تعلیم حاصل کرنے کا وقت نہیں،
اصل میں ہم انسان جس مقصد کے لیے پیدا کیے گئے تھے وہ purpose تھا عبادت worship اور یہ کہیں اتنا پیچھے رہ گیا ہے کہ انسان نے اس کو یاد تک نہیں رکھا آخر کیوں ہمارے نبی ہمارے صحابہ آگر آج کے انسان کی اس غفلت کی زندگی کو دیکھیں تو رہ پڑیں لیکن ہمارے دل صرف اس صورت میں بدلتے ہیں جب تک ہم دنیا کے ہاتھوں توڑے نہ جائیں
غالبا انسان کی فطرت ہی ایسی ہے کہ جب تک وہ لوگوں کے ہاتھوں ذلیل نہ ہو جائے وہ اپنے رب کو یاد نہیں کرتا حالانکہ بچپن سے ہم سنتے آتے ہیں نماز بچوں کو 7 ساتھ کی عمر سے پڑھانی چاہیے 10 سال کو پہنچے تو سختی کی جائے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا حالانکہ نماز تو فرض ہے نماز کی اہمیت اگر لکھی جائے تو الفاظ کم پڑ جائیں ،
دوسری جانب اگر با عمل لوگوں کی بات کی جائے تو لوگ ان کو بھی جینے نہیں دیتے ہمارے معاشرے میں کچھ مسلمان ایسے بھی ہیں جو مغرب زدہ ہو چکے ہیں ان کو نماز پڑھنے والے مولانا لگتے ہیں اور سر پہ دوپٹہ رکھنے والیاں تو پتہ نہیں کون سی مخلوق نا جانے یہ لوگ کسی بھی حال میں جینے کا حق چھین لیتے ہیں
اور انسان اگر رب کو راضی کرنے کے لیے کچھ کرنے لگے تو یہ لوگ ہمیں سب سے زیادہ discourage کرتے ہیں
لیکن میں اپنے تمام قارئین کو یہ بات کہنا چاہتی ہوں کہ میں نے اپنی زندگی کے ان گزرے سالوں سے یہی سیکھا ہے کہ لوگ چاہے انگاروں پہ ہی چل کر کہتے رہیں کہ الله کی فرمانبرداری چھوڑو تو ان کو چلنے دو انگاروں پہ آپ بس الله کی مانیں الله کی مان کر چلنے میں ہی عافیت ہے اور ایمان ملنے کے بعد سب سے زیادہ خوبصورت عافیت ہے
ہم ایمان کے جس بھی درجے ہوں ہمیں اس پہ قائم رہنا چاہیے ڈٹ جانا ہی عافیت ہے اور اگر پھر بھی لوگ آپ کو جینے نہ دیں کہ آپ کچھ اچھا کریں اور آپ کو طعنہ دئیے جائیں تو صبر کریں اچھا صبر سے متعلق مجھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خطبہ میں بیان کی گئی پانچ باتوں میں سے پانچویں بات یاد آئی ہے وہ اتنی خوبصورت اور interesting way میں بیان کی گئی ہے
“پانچویں چیز صبر ہے اور صبر کو ایمان میں وہی مقام حاصل ہے جو سر کو جسم میں اور جس کا صبر نہیں اس کا ایمان نہیں اور جس کا سر نہیں اس کا جسم نہیں”
یہاں اگر صبر نہیں ہے تو ایمان ہی نہیں ہے تو اپنے ایمان کو قائم رکھنے کے لیے الله کی خوشنودی کے لیے صبر بہت اہمیت رکھتا ہے
انسان جب بھی الله کی رضا حاصل کرنے کے لیے صبر کرتا ہے الله اس کو ضرور صلہ دیتا ہے اور ایسا صلہ ہوتا ہے کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے کیونکہ الله گمان سے باہر عطا کرنے والا ہے
المختصر میں ان ساری باتوں کے بعد آپ کو یہی کہنا چاہوں گی اپنی نمازوں کو قائم کریں اپنے لباس کے چناؤ میں احتیاط برتیں اپنے سر کو ڈھانپ کر رکھیں اور اپنے کردار کو بہترین بنانے کے لیے effort کریں اور خود کو پاک رکھیں حلال کو حلال جانیں حرام کو حرام سمجھیں اور الله سے ہر دم بہترین گمان رکھیں دعا ہے مجھ سمیت میرے تمام قارئین سے الله پاک راضی ہوں اور اپنی رحمت کا سایہ کریں
آمین ثم آمین
Leave a Reply