مصنفہ: صائمہ سحر
اسلام علیکم و رحمتہ الله وبرکاتہ!
امید کرتی ہوں آپ سب ایمان و تقویٰ کی بہترین حالت میں ہوں گی۔ میرا نام صائمہ سحر ہے۔ آج میں آپ سب کو اپنے ادبی سفر کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں۔
میں نویں جماعت کی طالب عالم تھی، میری ایک دوست تھی جو کہ ناولز پڑھنے کی بہت شوقین تھی۔ وہ ناول پڑھ کر تفریح کے وقت اس کی کہانی ہمیں سنایا کرتی تھی۔ اور ہم سب سہیلیاں بڑے شوق سے سنا کرتی تھی۔ وہ بہت مزے کی کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ اپنی دوست کی کہانیاں سنتے سنتے مجھے بھی شوق ہوا کہ میں بھی لکھوں۔ یوں میرا لکھنے کا سفر شروع ہوا۔ میں لکھتی رہی، اور جو بھی لکھا اسے اپنی ذات تک محدود رکھا۔ یوں دن گزرتے گۓ میں لکھتی رہی۔ میں پیپرز میں جو تشریح کے لیۓ پیرا گراف، اور اشعار ہوتے ان میں اپنی اشعار لکھتی تھی۔ میٹرک ہو گیا، اور کالج کی زندگی شروع ہو گئی۔ اور مجھے پہلی دفعہ موقع ملا کالج کے میگزین میں کچھ شائع کروانے کا، میری ایک بہت ہی پیاری استاد نے مجھے یہ موقع دیا۔ اور میں نے ماں کے عنوان پے ایک آذاد نظم لکھی، جو کہ میگزین میں شائع بھی ہوئی۔
بی۔ اے ہو گیا۔ کالج کی زندگی ختم ہو گئی۔ میں ماں باپ کی ایک ہی بیٹی تھی۔ ماں باپ نے شادی کا فرض ادا کرنا چاہا، تو میں نے اپنے منگیتر سے اس شرط پے منگنی کی، کہ مجھے لکھنے سے نہیں روکیں گے، ان کو بھی ماننا ہی تھا کیونکہ میری پسند کی شادی تھی، ان کے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا۔ شادی ہو گئ، شادی کے چھ ماہ بعد یونیورسٹی چلی گئی۔ یوں ماسٹر بھی ہو گیا۔ مگر اس کالج کی میگزین کے بعد میں نے کبھی کچھ شائع نہیں کروایا۔ اس طرف کبھی دھیان ہی نہیں آیا۔
دو بچے ہو گۓ، میں نے بی۔ایڈ کے لیۓ ایک کالج میں داخلا لیا۔ اس داخلے کو میں اپنی خوش قسمتی سمجھتی ہوں کیونکہ وہاں مجھے ایک فیلو ملی، رابعہ بصری، میں نے ان سے ذکر کیا، اپنے لکھنے کا، انہوں نے ہامی بھری میرا ساتھ دینے کی، مجھے علم نہیں تھا کہ کیسے شائع کرواتے ہیں، کیونکہ میرے خاندان اور دوست احباب میں کوئی بھی لکھاری نہیں تھا۔ اس لیۓ مجھے پہاڑ سے بھی بڑا لگتا تھا شائع کروانا۔
مگر مجھے پہلی دفعہ موقع مل ہی گیا، اور میں نے پہلی دفعہ “دیوار دل” میم علشبہ تنویر کی انتھالوجی کتاب میں بطور شریک مصنفہ لکھا۔ اس کے بعد میں اور میرا رب، ہم اردو والے اور بہت سی انتھالوجی کتابوں کا حصہ بنتی گئی۔ اور اب تک پندرہ سے زیادہ انڈین اور پاکستانی انتھالوجی کتابوں کا حصہ بن چکی ہوں۔
اب تو الحمدللہ بہت سارے میگزین، اور اخبارات میں اپنی تحریر شائع کرواتی ہوں۔
کتابوں کا زکر تو بہت ہوا، اب میں اپنی شاعری کی دنیا کا تزکرہ کروں گی۔ میں نے ناولز کی کہانیاں لکھنے سے ذیادہ شاعری کی تھی، فرسٹ ائیر کا بستہ اب تک میں نے سمبھال کر رکھا ہوا ہے جو کہ شاعری سے بھرا ہوا ہے۔
مگر میرے لئیے بڑے دکھ کی بات یہ جان کر ہوئی، کہ میڈم آپ کا کلام بے وزن ہے۔ مجھے علم العروض کے بارے ذرا بھی پتہ نہیں تھا، کہ آیا یہ سیاپا ہے کیا؟؟
میں دل ہی دل میں علم عروض کو بنانے والی شخصیات کو کوسنے لگی، اور دل میں خواہش مند تھی کہ کاش یہ علم عروض نہ بنا ہوتا۔ تو آج میرا وہ بستہ جو کہ شاعری کا بھرا ہوا ہے، اس کودیکھ کر دکھ نا ہوتا۔ اب اس بھرے ہوۓ بستے کو دیکھ کر میرا دل کرتا ہے کہ گلی میں پھیری والے جو نمکو اور پتیسہ لے کر آتے ہیں وہ لے لوں، مگر وہ کرنے کو بھی دل نہیں کرتا، کیونکہ وہ صرف بستہ نہیں میرے ٹوٹے دل کی آواز ہے جو کہ لوگوں کو بے وزن کلام لگتا ہے ، مگر وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کے مجھے پندرہ سال لگے اس کو لکھنے میں، دوہزار دس میں، میں نویں جماعت میں تھی۔
میرے کتنے ارمان ہیں اس بستے میں، جو چھپے پڑے ہیں۔ ان کا دل میری طرح ٹوٹا ہوتا تو وہ مجھے سمجھتے نا’۔ ان کے ارماں یوں ٹوٹ کر بکھرتے تو میں ان سے پوچھتی۔
میری شاعری کی کتاب منظرے عام پر لانے کی خواہش ابھی تک ادھوری ہے، کیونکہ میں نے اپنی ایک دو غزلیں کسی کو سینڈ کی، تو جواب ملا یہ وزن میں نہیں۔ پھر میں نے علم عروض مجبوراً سیکھنا چاہے جو کہ ذرا بھی مجھے سمجھ نہیں آتے تھے۔
میری مادری زبان پنجابی تھی تو میں اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتی تھی۔ پھر میں نے کچھ نغمے لکھے، تو اب میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا، ان کو سنگرز تک پہنچانے کا تو ایک ڈائریکٹر کا نمبر کسی سے ملا، میں نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا ہے “بی بی” اگر آپ نے سنگرز کو گانا دینا ہے تو پندرہ ہزار روپے دیں، جو کہ میرے پاس نہیں تھے۔ تو انہوں نے انکار کر دیا۔ میں ایک دفعہ پھر سے ٹوٹ گئی۔ کیونکہ میں یہ بھول گئ تھی کہ یہ دنیا پیسے کو سلام کرتی ہے، میری یہاں کون سنے گا؟؟؟
پھر میرے جاننے والے میرے معزز سر “واصف علی” نے کہا کے میں آپ کے نغمے گاؤں گا۔ اب انشاللہ بہت جلد میرا پہلا نغمہ واصف علی کی آواز میں آ رہا ہے۔ قدم قدم پے میں نے دیکھا کہ لوگ مجھے دھتکار رہے ہیں۔ میں نے بہت سی مشکلات کا سامنا بھی کیا، جن کا زکر کر کے میں اور دل برداشتہ نہیں ہونا چاہتی۔ لوگ مجھے سمجھتے ہوں گے کہ میں ایک ناکام لکھاریہ ہوں، مگر الحمدللہ مجھے نہیں لگتا۔ کیونکہ مجھے سمجھنے کے لیۓ انہیں میرے جسے حالات سے گزرنا پڑے گا۔ میرے ٹوٹے دل کے الفاظ وہی سمجھے گا، جو میری طرح ٹوٹے گا۔ میرے آنسؤں کا درد وہی سمجھے گا، جو میری طرح روۓ گا۔ مجھے سمجھنے کے لیۓ لوگوں کو میری راہ پر چل کر، میرے جیسا دل لے کر، میرے جیسا ہو کر مجھے سمجھنا پڑے گا۔
Leave a Reply