تازہ ترین / Latest
  Wednesday, December 25th 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

عنوان: اک خلش

Literature - جہانِ ادب , / Friday, May 10th, 2024

مصنفہ: فاطمہ بنت لیاقت علی

وہ عروسی جوڑے میں ملبوس کھڑکی سے چاند کی پھیلتی ہوئی روشنی کو دیکھتے ہوئے وہ اپنے دل سے مخاطب تھی “اے دل کی خلش چل یونہی سہی، اس کا میری زندگی میں نہ ہونا ہی بہتر تھا، “شاید آج بابا زندہ ہوتے تو یہ نہ ہوتا” وہ سوچوں کے سمندر میں ڈوبی، خود سے بے خبر کھڑی تھی۔
“چاند بہت خوب صورت لگ رہا ہے نا بلکل تمہاری طرح۔ “صائم نے روحی کو دیکھتے ہوئےکہا، روحی ابھی بھی کسی گہری سوچ میں گم تھی۔
” روحی تم میری زندگی کا بہت خوب صورت تحفہ ہو میں نے تم سے بہت محبت کی ہے” صائم نے روحی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ اچانک سوچوں کا تسلسل ٹوٹا اور روحی نے صائم کو دیکھا اور نظریں جھکا لیں، جیسے وہ کچھ چھپانا چاہتی تھی،
“آج ہماری زندگی کا بہت خوب صورت دن ہے آج سے ہمارا اک نیا سفر شروع ہوگا” صائم نے روحی کو بٹھاتے ہوئے کہا۔
روحی سیٹھ عبداللہ کی اکلوتی بیٹی تھی، خوبصورت لمبے بال، چاند سے چمکتے چہرے کی مالک، روحی تین بھائیوں کی اکلوتی اور لاڈلی بہن تھی، وہ ابھی انٹرمیڈیٹ کا امتحان دے کر فارغ ہوئی تھی۔
وہ دوستوں کے ساتھ آج باہر گئی تھی واپس لوٹی تو گھر میں ہر طرف چہل پہل نظر آرہی تھی اسے حیرانی ہوئی لیکن وہ اپنی حیرانی کو سائیڈ پر رکھتی عارف کے پاس آگئی۔
“عارف بھائی! آپ جانتے ہیں آج میرا رزلٹ آنا ہے پھر میں وکیل بن جاؤں گی”روحی نے خوشی سے بتایا۔
” بھائی جان! اماں بابا کب تک آئیں گے میرا رزلٹ آنے ہی والا ہے”وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے ماں باپ کبھی لوٹ نہیں آئیں گے آج سےاس کی زندگی کا تکلیف دہ سفر شروع ہو جائے گا۔
“روحی بیٹا! آپ کپڑے تبدیل کرلو “روحی کی بھابھی جو ابھی ہی وہاں آئی تھیں انہوں نے نرمی سے کہا۔
“جی بھابھی میں یوں گئی اور یوں آئی” وہ خوشی خوشی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
” دانش!دانش! ذرا دیکھو کس کی کال ہے؟ “اکمل نے اپنے چھوٹے بھائی دانش سے کہا جو پچھلے دنوں ہی بینک میں مینجر کے عہدے پر فائز ہوا تھا۔
“کیا آپ عارف صاحب بول رہے؟ “فون پر دوسری طرف سے آواز آئی۔
” جی نہیں میں ان کا بھائی دانش ہوں، آپ مجھے بتائیے میں ان تک آپ کا پیغام پہنچا دوں گا”
” میں وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور سے بول رہا ہوں، سیٹھ عبداللہ کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے آپ جلد از جلد پہنچ جائیں”خوشی کا سماں ماتم میں بدل گیا۔
“روحی جلدی آؤ ماں جی اور بابا کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے” بھابھی نے روحی کو آواز دی، روحی پر سکتہ طاری ہو گیا۔
“بھابھی آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں ؟ یہ نہیں ہو سکتا ”
“تمہارے بھائی جان ہسپتال گئے ہیں بس تم دعاکرو کہ سب ٹھیک ہو” روحی اور رمشاء ( عارف کی بیوی) ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگیں، روحی نےوضو کیا اور جائے نماز پر بیٹھ گئی اور اپنے والدین کی زندگی کی دعا کرنے لگی، وہ زاروقطار رو رہی تھی کہ اچانک فون کی گھنٹی بجنے لگی وہ جلدی سے اٹھی اور فون کی طرف لپکی۔
” جی عارف بھائی بابا کیسے ہیں؟ ان کا ایکسیڈنٹ کیسےہوا؟” وہ یکے بعد دیگرے سوال کرنے لگی۔
” روحی ہم یتیم ہو گئے امی ابو ہمیں چھوڑ کر چلےگئے”عارف نے دھیمی آواز سے کہا، روحی زمین پر صدمے کی حالت میں گر پڑی اتنے میں ایمبولینس دروازے پر آ کھڑی ہوئی۔
جنازے کی تیاری ہونے لگی اور اس کے والدین کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ روحی خاموش سی رہنےلگی تھی، ایک دن اچانک اس کی دوست نیہا روحی کو مبارک باد دینے کے لیے اور دروازے پر کھڑے ہی کہنے لگی روحی تم نے ملتان بورڈ میں فرسٹ پوزیشن لی ہے لیکن جیسے ہی اس نے روحی کو دیکھا اسے تجسس ہونے لگا کہ روحی کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ کے بعد آنکھیں نم ہونے لگی وہ چاہتے ہوئے بھی خوش نہ ہوسکی، جب نیہا کو اس کے والدین کا پتا چلا تو وہ روحی کے گلے لگ گئی اور اسے تسلی دی۔
وقت گزرتا ہی جا رہا تھا روحی کی ناقدری ہونے لگی، اکمل اور دانش کی بھی شادی ہوگئی وہ دونوں اپنی فیملیز کے ساتھ لندن شفٹ ہوگئے، ایک دن روحی عارف کے پاس گئی اور کہنے لگی بھائی میں لاء کرنا چاہتی ہوں میں بابا کا خواب پورا کرنا چاہتی ہوں تو عارف نے صاف انکار کردیا کہ یہ نہیں ہوسکتا میرا امریکہ کا ویزا لگ چکا ہے میں جلد از جلد تمہاری شادی کرنا چاہتا ہوں۔ “بھائی جان میرا خواب؟”
“وہ خواب اباجی کے ساتھ ہی مر گئے تھے، رمشاء! کل ایک فیملی آرہی ہے روحی کو دیکھنے تم اسے اچھے سے تیار کر دینا” عارف نے بیڈ پر بیٹھی رمشاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
روحی کی انگلیاں کانپ رہی تھیں جب اس نے اپنے دوپٹہ کے کنارے کو پکڑا تھا، اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی پرندے کو پنجرے میں بند کیا جارہا ہو، صرف 19 سال کی عمر میں، اس کی زندگی کا فیصلہ اس کے لیے کیا جا رہا تھا کہ وہ یتیم ہوگئی ہے، اس کے خواب اور خواہشات محض ایک خلش بن کر دل میں رہ گئے۔
اس کے ذہن میں اس کے بھائی کی آوازیں گونج رہی تھیں، ان کے الفاظ اس کے دل کو خنجر کی طرح چھید رہےتھے۔ “روحی، تم اب ایک عورت ہو، یہ گھر بسانے کا وقت ہے، یہ شادی تمہارا مستقبل محفوظ کر دےگی۔”
روحی کا مستقبل اس کا انتخاب نہیں تھا، یہ ایک پہلے سے طے شدہ راستہ تھا، جو دوسروں کی توقعات پر ہموار تھا، وہ آزادی کی ہواؤں میں اڑنےکی، اپنے جذبوں کا پیچھا کرنے کی خواہش رکھتی تھی۔ لیکن وہ خواب روایت اور فرض کے بوجھ سے دم توڑ رہے تھے۔
اس کے چہرے پر آنسو بہہ رہے تھے جب وہ دل ہی دل میں خاموش التجا کررہی تھی، “براہ کرم مجھے آزاد رہنے دو، مجھے اپنے خوابوں کی اڑان بھرنے دو۔” لیکن الفاظ اس کی خاموشی میں کھو گئے، قسمت کے فیصلے سے وہ بچ نہ سکی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International