Today ePaper
Rahbar e Kisan International

عنوان. دال میں کالا کالا

Articles , Snippets , / Tuesday, June 3rd, 2025

rki.news

تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
مجھے ساون کی مشکوک حرکات و سکنات صبح ہی سے کھٹک رہی تھیں، ناشتہ کرتے ہوے غایب دماغی سے میرے جوس کے گلاس میں سے چسکیاں لگاتا رہا اور جب میں نے دبے دبے لہجے میں احتجاج کیا تو خالی نظروں اور سپاٹ چہرے سے مجھے یوں دیکھنے لگا جیسے میں اس سے ہسپانوی زبان میں بات کر رہا ہوں. جیسے میں کسی اور ہی سیارے کی مخلوق ہوں اور وہ میرے کہے ہوے الفاظ اور ان کے مفہوم کو سمجھنے سے یکسر قاصر ہے. خیر یہ کوی ایسی بڑی بات نہ تھی یہ phases, ساون کی شخصیت کا لازم و ملزوم حصہ تھیں، وہ کبھی اتنا سوشل ہوتا کہ لگتا نانی، دادی، نانی، چاچی اور ماں جی سے لیکر محلے کی تمام خواتین کے کام کروانے کے لیے بھی ہمہ وقت اس کے پاس وقت ہی وقت ہوتا، چاچی کے دوپٹے رنگ کروا کے پیکو کروانا، دادی کی ساری دواییاں پلک جھپکتے میں ہی محلے کے سٹور سے پکڑ لانا، امی کو کریلے چھیلنے سے لے کر گاجر کدو کش کرنے تک جیسے مشکل کام، اگر کوی بھی کرنے کو راضی نہ ہوتا تو ساون وہ کام پلک جھپکنے میں کر دیتا، مگر یہ ساون کی شخصیت کا ایک رخ تھا، دوسرا رخ انتہائی خطرناک اور مایوس کن تھا، کبھی کبھی وہ دنیا سے اتنا اوب جاتا، اتنا بیزار ہوتا کہ کءی کءی دن کمرے سے ہی نہ نکلتا، کھانا پینا بھول جاتا، پڑھائی لکھائی کو پس پشت ڈال دیتا، نہ دین کی خبر نہ دنیا کی، بال کھچڑی، کپڑے ملگجے، ساون کی ماں اس کی یہ سوداییوں جیسی حالت دیکھ کر خود بھی سودای ہی ہو جاتی، پیروں فقیروں کے چکر لگاے جاتے، توبہ توبہ کروای جاتی، تعویذ منڈھوائے جاتے، دم درود والا پانی گھر کے کونوں کھدروں میں چھڑکا جاتا، صدقہ خیرات کیا جاتا، باولی ماں اکلوتے بیٹے کے بازو پہ امام ضامن باندھتی، ہاں ڈوبنے والا ڈوبنے سے پہلے اپنی جان بچانے کے لیے جتنے حیلے کر سکتا ہے، ساون کی ماں اس سے بڑھ کے حیلے کرتی، جب اس کا بیٹا تارک دنیا ہو جاتا، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے صرف اور صرف اپنے کمرے کا ہو کر رہ جاتا تو جھلی ماں کی تو مانو جان پہ ہی بن آتی وہ جلے پیر کی بلی کی طرح پورے گھر میں چکراتی پھرتی، کیا کرتی شریکے برادری کے نام پہ دورانیوں، جیٹھانیوں، نندوں اور ساس کے عتاب کا نشانہ بھی بنتی اور اپنے سترہ سالہ بیٹے کی بے بسی پہ خون کے آنسو بھی بہاتی، ہر فقیر کی جیب بھی گرم کرتی، مسکینوں کو کھانا”بھی کھلاتی اور رب کے سامنے گڑگڑاتی بھی. اور کر بھی کیا سکتے ہیں ہمارے آپ جیسے مظلوم، بے بس اور لاچار لوگ، ہماری دوڑ اتنی ہی ہوتی ہے جتنی ملا کی دوڑ مسجد تک. خیر مجھے ساون سے پیار اس لیے بھی زیادہ تھا کہ وہ تقریباً میرا ہم عمر ہی نہیں ہم دونوں بچپن کے یار، ایک ہی سکول ایک ہی کلاس میں پڑھتے پڑھتے ہم دسویں پاس کر کے کالج کی آزاد فضاوں میں جا پہنچے تھے، میں سدا کا پڑھاکو، غسل خانے میں بھی نصابی کتابوں کو رٹے لگانے والا اور ساون بس کتاب کو اتنی ہی لفٹ کرواتا کہ پاس ہو کر اگلی جماعت تک پہنچ جاتا خیرجو بات میرے لیے اچنبھے کا باعث ہوی وہ تھی ساون کی ہمسایوں کی لڑکی کے ساتھ حد سے زیادہ قرابت داری، وہ پہروں سوہا زیب کے بارے میں سوچتا اور اس سے ملنے کی تراکیب توڑتا اوربناتا رہتا اس شام اس نے سوہا سے ملنے کا پروگرام بنا رکھا تھا وہ پورا دن ہی بہت خوش دکھای دیتا تھا مگر شام کو تو مانو جیسے اس کے سارے ہی فیوز اڑ گیے تھے، ساون، ساون نہیں خزاں میں گھرا ہوا برگد کا درخت دکھای دیتا تھا نہ اس نے مجھے اپنی ملازمت کی تصاویر دکھایں نہ کوی داستان سنای اور سونے چلا گیا اور ایسا سونے گیا نہ پھر اٹھ نہ پایا اسے سوہا نے دھتکارا، اس نے چھوٹے چاچو کی دراز سے نیند والی گولیوں کا پورا پتا کھا کے زندگی اور
زندگی کی ‍تمام نعمتوں کو ہی دھتکار دیا اور میں سواے اپنے سر کے بال نوچنے لے کچھ بھی نہ کر سکا، کاش میں اس وقت کوی سکیم لگا کے اپنے جگری یار کی جان بچا لیتا جب مجھے ساون کی. بہکی بہکی اداءیں دیکھ کر ہی دال میں کچھ کالا دکھای دے رہا تھا.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnamnaureen1@icloud.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International