rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
مانگنے والا تو سوالی یے
در مولا پہ اک موالی ہے
دینے والے کی عطا کیا دے گا
خالی کاسہ گدا کا بھر دے گا
یا خالی کاسے کو لوٹا دے گا
مانگنے کا نہ کچھ صلہ دے گا
دینے والے کی عطا کیا دے گا ؟
ہم اور آپ کیوں مانگتے ہیں؟
کبھی غور کیا ہے آپ نے، ہماری اور آپ کی محرومیاں ہمیں مانگنے پہ مجبور کرتی ہیں. اورمانگنے کے لیے سب سے اعلیٰ اور افضل در اس رب کا ہے جو خالق کون و مکاں اور مالک ہر ہر جہاں ہے، وہ جس کے کن کے منتظر ہیں سارے عالم اور وہ جس کے قبضے میں ہے تمام جانداروں کی جان، وہ جس کی بخشش کے محتاج ہیں آپ اور ہم اور وہ جس کے رزق کے خزانے کھلے ہیں ہر ہر نفس اور ہر ہر جاندار کے لیے،اور کبھی کبھی تو خوف اور ندامت سے میرا لوں لوں کھڑا ہو جاتا ہے کہ دینے والے کا دل کتنا بڑا ہے، دینے والے کی عطا کا دایرہ کتنا وسیع ہے، اس کا ظرف کتنا بڑا ہے، وہ انسانوں کی کوتاہیوں، گستاخیوں، ناشکرے پن کے باوجود بھی ہر بھوکے کو کھانا، ہر ننگے کو کپڑا اور ہر محروم تمنا کو نوازنے میں کسی قسم کی کوی کسر نہیں چھوڑتا. وہ کتنے مضبوط اعصاب اور بخشش و عطا کا روشن مینارہ ہے کہ مانگنے والوں کا منتظر ہی نہیں رہتا ان کی جھولیاں بھرنے میں بھی بڑی فیاضی سے کام لیتا ہے، ہاں دعا صرف یہ کرنی چاہیے کہ ہمیں مانگنا اس ذات پاک سے ہی چاہیے جو دینے کے بعد نہ ہی جتاتا ہے نہ ہی رلاتا ہے.
دینے والے کا حوصلہ تو دیکھ
دیتا ہے، دے کے بھول جاتا ہے
نہ جتاتا نہ ہی ستاتا ہے.نہ ہی رلاتا ہےاور نہ ہی دینے کے بعد ہمیں دوسروں کے سامنے نشانہ عبرت بناتا ہے، وہ ہمیں دے کر ہمارے بھید اور بھرم بھی رکھتا ہے، وہ ہمیں ککھ سے لکھ پتی بنا کے بھی ہمارا بیچ چوراہے میں تماشا نہیں لگاتا وہ پالن ہار وہ دینے والا اتنا ہی عالی ظرف ہے اب یہ اس کی عطا ہے کہ وہ کس کو کیا عطا کرتا ہے. لیکن ایک بات طے ہے کہ ہمیں ہمیشہ مانگنا رب ہی سے چاہیئے، کیونکہ اور کسی کا اتنا ظرف ہی نہیں کہ وہ ہمیں ہماری من چاہی شے سے نواز بھی دے اور ہمارا پردہ بھی رکھ لے. تو عصمت آرا ایک بیوہ تھیں، دو بچوں کا ساتھ اور منہ کھولے ہمالے سے بھی اونچا قد نکالتا ہوا مہنگائی کا جن جو کسی طور بھی بوتل میں پورا نہ آتا تھا، گرمیوں کی چھٹیوں میں عصمت آرا بمع بچوں اپنے اکلوتے بھای سے ملنے چلی آءیں سوچ رہی تھیں کہ چند روز بھای کے پاس رہ کے بچپن کی یادیں تازہ کر کے خود بھی تازہ دم ہو جایں گی اور بھای بھی خوش ہو جاے گا مگر بھائی بہن کی خوشیوں پہ اوس اس وقت پڑ گءی جب عصمت آرا نے بڑے لاڈ سے اپنی افسرانی بھاوج کا گریڈ اور تنخواہ بڑھنے پہ مٹھای کھانے کا تقاضا کیا تو افسرانی اور دل کی تھوڑی بھرجای نے منہ پکا کر کے کہا جا بیبی اپنے گھر جا ہم محنت منگتوں کے لیے نہیں اپنے بچوں کے لیے کرتے ہیں، بیوہ بہن نے ایک نظر آسمانوں والے داتا پہ ڈالی دونوں بچوں کو ہاتھوں کی زنجیر میں جکڑا اور نم آنکھوں سے اکلوتے بھای کی دہلیز پار کر گءی اور آسمانوں والے نے اس بیوہ کو اتنا نوازا کہ پھر افسرانی بھرجای ساری عمر غش ہی کھاتی کھاتی چارپائی سے جا لگی.
کروڑوں روپے کی جائیداد ریحانہ انجم نے ہنسی خوشی اپنے بڑے بھای سبحان یاسین کے نام کر دی عید پہ جب ریحانہ انجم کی بھرجای ایک سستا سا شفون کا جوڑا عیدی کے نام پہ لے کے ریحانہ انجم کے پاس پہنچی تو ریحانہ انجم نے بڑی حسرت سے بھابھی کے ہلکے گلابی سوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا کہ بھابھی جی ایسا ہی سوٹ میرے لیے بھی لے آتیں تو کتنا اچھا ہوتا، بھابھی تو چپ رہیں مگر بھائی صاحب نے ایسا جواب دیا کہ لکھنے لایق ہو گیا، بولا بہن جی ریجوں والے جوڑے ماییں لے کر آتی ہیں. بھابیاں جیسے بھی جوڑے لے کر آئیں قبول کرنے پڑتے ہیں، بیچاری ریحانہ صبر کے کڑوے گھونٹ پی کر چپ ہو گییں.
تو وہ پالن ہار جس نے ہمیں آنکھیں، چہرہ، ہاتھ،پاوں ،حسن،ذایقے، احساسات کے ساتھ ہر طرح کی دنیاوی نعمتوں سے بھی نوازا تو کیوں نہ اس کے شکر میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیں اور اس اونچی شانوں والے کے حضور سجدہ ریز ہو جایں.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور drpunnamnaureen@gmail.com
Leave a Reply