تازہ ترین / Latest
  Tuesday, December 24th 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

عنوان : سراب

Literature - جہانِ ادب , / Wednesday, May 29th, 2024

پہلی قسط

میں ہوں سلطان…!!
مجھے وہ سلطان نہ سمجھنا جو عیش و عشرت کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہا ہوتا ہے بلکہ میرا نام سلطان ہے

لیکن حالات اور زمانے کے حساب سے میں فقیر ہوں

میں تو سمجھتا تھا کہ میں کچھ بھی کرسکتا ہوں، میرے دوست میری زندگی ہیں اور میری خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں
میں اپنے دوستوں کو اپنا سب کچھ سمجھتا تھا

(مگر یہ گمان فقط نہ تعبیر ہونے والا خواب تھا)
انہی دوستوں میں ایک ایسا بھی تھا جو ہردم ہر پَل دوستی کے نغمیں گنگناتا تھا اس کا نام علی تھا۔ ہم دونوں ہم جماعت تھے

تب میں شہر کی فضا سے خاص واقف نہ تھا، میں نہیں جانتا تھا کہ شہر کی ہوا میں گاؤں کی فضا گن ہو سکتی ہے

میرے خیال میں رات کو کھانا کھا کر سو جانا اور صبح اٹھ کر ناشتہ کرنا ہی زندگی ہوتی تھی

یہ محبت، شہر کی رونقیں, جذبات، خیالات، اور تمام معاملات میری سمجھ سے باہر تھے
خیر کچھ دن میرے اسکول میں گزرے تو میں نے بہت کچھ سیکھا۔ میں پڑھنے لکھنے کا شوقین تھا اور شاید اسی کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتا تھا۔ اسی لیے ہر بار امتحانات میں اول نمبر سے کامیاب ہوتا تھا۔ ان چیزوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میرے اساتذہ نے مجھے کلاس کا ذمدار بنا دیا۔ سب کچھ زندگی میں بہت اچھا چل رہا تھا…۔۔۔

تقریبا 4 ماہ بعد دسمبر کے دن تھے اور بہت زیادہ سردی تھی..۔۔۔
میرے دوست علی کی ایک لڑائی ہوئی وہاں تھوڑا خون خرابہ ہوا تو ہمارے بڑوں نے ہمیں کچھ دن شہر سے دور رہنے کا کہا!!!
میں اپنے دوست علی کے ساتھ اس کے گاؤں چلا گیا.. کیونکہ میں پہلے ہی ایک گاؤں کا رہنے والا تھا سو اس لیے اتنی خوشی نہ تھی …!!
لیکن مجھے علم نہ تھا کہ میری زندگی کے چلتے ہوئے سیدھے سفر میں موڑ بھی آئیں گے۔ میں وقتاً فوقتاً چھت پر ٹہلنے جایا کرتا تھا۔ ایک دن میں چہل قدمی کر رہا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں اک آواز پڑی، وہ آواز ایسی تھی کہ جیسے کوئی کوئل کی کوک ہو۔ وہ آواز مہک کے ساتھ رس گھولتی ہوئی میرے دل و دماغ میں اُتر گئی
میں نے بے ساختہ چاروں طرف تجسس بھری نگاہ سے دیکھا کچھ نظر نہیں آیا لیکن میری نظر جب سامنے والے گھر کی چھت پر پڑی تو وہاں اک خوش مزاج لڑکی آسمان کے سائے تلے اپنی زلف کو لپیٹ دیتے ہوئے تمام فضا مہکا رہی تھی

اس کے ہاتھ گلاب کی مانند تھے، چہرہ تازہ کلی کی طرح چمکدار تھا، زلفیں جیسے کہ ایک حسین شام ہو… نیز وہ جیسے میرے خوابوں کی ملکہ ہو….!!

اب میں روز کسی بہانے چھت پر جاتا تھا کہ اُس حسین کلی کا دیدار کر آ ؤ ں، کبھی اپنی قسمت کو روتے ہوئے خالی نظروں سے واپس آ جاتا اور کبھی اپنی قسمت پر رشک کر کے اور آنکھوں کو جلا بخش کے لوٹتا

کچھ دن ایسے ہی چلتا رہا، میں نے ایک دن ہمت کر کے اس سے بات کرنے کی کوشش کی اور چھت سے اس کو اشارہ کیا۔ پہلے تو اس نے نظرانداز کیا لیکن پھر ایک دن اُس نے جوابی اشارہ دیتے ہوئے میری زندگی کو چمکا دیا

کچھ دن ہم ایسے ہی بات کرتے رہے اور پھر تقریباً روز چھت پر جایا کرتے تھے روز کوئی نہ کوئی بہانہ ہوتا اور ایسے ہماری دوستی گہری ہوتی گئی

تجھے کپڑوں کا جواز اور مجھے دوست کا فون
آ ملاقات کریں چھت کا بہانہ کر کے

شوذیب کاشر

ایسے میری زندگی میں ایک نیا موڑ آیا جو کبھی میں نے سوچا بھی نہ تھا، میری زندگی جیسے اُس کی منتظر ہو، نگاہیں دیکھنے کے لیے بیتاب رہنے لگیں، گویا سب کچھ بدلنے لگا۔۔۔۔

ماہی رانا


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International