تازہ ترین / Latest
  Sunday, October 20th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

عنوان: محبت کا مصور

Articles , / Tuesday, May 14th, 2024

مصنفہ: صائمہ سحر (چشتیاں شریف)

میں تنہائیوں میں رہنے کی عادی تھی، میں تنہا تنہا جیتی تھی اپنی ذات تک محدود رہتی تھی میرے لیے کوئی خوشی خوشی نہ تھی، چاروں طرف غموں کے پہرے تھے۔ ایک روز میں چلتے چلتے ایک جھیل کنارے پہنچی جس کا منظر مجھے بہت ہی دلکش لگا اس جھیل کو دیکھتے ہی مجھے دوبارہ جینے کی تمنا ہوئی، کیونکہ میں آنسو جھیل پہ گئی۔ مجھے آنسو جھیل دیکھنے کی اس لیے بھی تمنا تھی، کیونکہ میری زندگی آنسوں سے بھری ہوئی تھی۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ اس جھیل کا نام آنسو کیوں پڑا؟؟ میں جھیل کے کنارے گئی ٹھنڈی ٹھنڈی برفانی جگہ پر بیٹھی، جھیل کو اپنا حال دل سنانے لگی، اور پھر دھیرے سے پوچھا تو اپنا تو حال دل بتا، تیرا نام آنسو کیوں پڑا؟؟؟؟ وہ بڑے درد بھرے لہجے میں بولی کوئی بے وفا تھا اور کچھ خود غرض لوگ جن کی وجہ سے میرا نام آنسو پڑا۔جھیل نے کیا خوب کہا”میری کیفیت جاننی تو آ گلے لگ زرا دھیرے سے بتاؤں کہیں یہ بےدرد زمانہ مجھے اور تمہیں بھی جدا نہ کر دے حال دل سناننے سے پہلے”۔ اور پھر میں نے اسے اپنا حال دل سنایا میں نے اسے بتایا کہ میں؛
کسی کو دل و جان سے زیادہ چاہتی تھی۔
وہ! جو میری محبت کا مصور تھا۔
مجھے! دل و جان سے زیادہ چاہتا تھا۔
محبت میں ہم اس منزل تک پہنچ چکے تھے۔
جہاں سے واپسی کا سفر صرف بربادی کا تھا۔
میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کے اسے کہا!
کبھی چھوڑ کے نہ جانا’ مجھے
تمہارے بن دوسرا سانس نہیں لوں گی۔
میں! مر جاؤں گی تمہارے بن
میری! دنیا ادھوری ہے تیرے بن
اتنی سی تمنا میری سلامت رہے
وہ دنیا جو بڑے پیار سے بنائی ہم! دونوں نے
اور اس میں صرف چاہتا ہوں کہ سپنے تھے۔
وہ! دنیا جس میں صرف محبت ہی محبت ہو گئی’
ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی۔
کوئی! غم نہ ہوگا
جب ساتھ ایک دوسرے کا ہو گا۔
ایک دوسرے کے لیے جیں گے
اک دوسرے کے لیے مریں گے۔۔۔
ہر دکھ میں سکھ میں ایک ساتھ جیں گے۔
جب بھی ہو کوئی خطرہ تو ساتھ لڑیں گے۔
مگر کیسے کہوں؟ وہ باتیں صرف باتیں تھیں’
وہ ساری چاہتیں وہ ساری محبتیں جھوٹی تھیں۔۔
وہ جو بیچ سفر مجھے چھوڑ گیا’
نہ! جینے کا نہ! مرنے کا چھوڑ گیا۔۔
خود تو گیا! سو گیا!
مان محبت کو بھی توڑ گیا!
جس محبت کو بنانے میں صدیاں لگی
اور اسے بگاڑنے میں ایک لمحہ بھی نہ لگا۔۔
کیسے کہوں؟؟؟ کہ وہ بے وفا تھا
مگر میرا دل نہیں مانتا تھا۔۔۔۔
مجھے لگتا تھا شاید اس کی مجبوری ہے؟
اور یہی میری کمزوری بنی رہی ہے۔
مگر! اب مجھے اور جینا تھا
اس پہ حق صرف میرا تو نہیں’ تھا۔
دنیا میں اسی اور بھی میسر ہوں گے؟
تبھی تو میرا نہ تھا”
آنسو جھیل کو اپنا حال دل سنانے کے بعد اس کو گلے لگا کے رونے کو جی چاہا، میں نے اپنے دونوں بازو پھیلائے اور اس کے آنسو کو اپنے بازو کے حصار میں لے کر اسے اپنے سینے سے لگا کر زار قطار رونے لگی۔
اسے اپنے دل کا حال سنانے لگی مگر کیا کرتی؟؟ اور کر بھی کیا سکتی تھی؟؟؟؟ وہ تو مجھ سے بھی زیادہ دکھی تھی۔ کیونکہ نام تو اس کا بھی آنسو تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی دلجوئی کی ایک دوسرے کے غموں ، کو ایک دوسرے سے سنا کے دلوں کے بوجھ ہلکے کیۓ۔ اس نے میری آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کیۓ۔ یوں آنسؤں سے آنسؤں کا یہ رشتہ مضبوط ہو گیا۔ کیونکہ دونوں محبت کی مسافر تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو سہارے دیے۔ کیونکہ ملے بھی تو آنسو ، اور دیے بھی تو اس نے
وہ جو دنیا بھر کی محبتوں کا دعویدار تھا۔وہ جو میری محبت کا مصور تھا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International