rki.news
ازقلم: ام حبیبہ اصغر (سیالکوٹ)
رات کے سنّاٹے میں دیوار پر لٹکی گھڑی کی ٹک ٹک یوں گونج رہی تھی جیسے خود وقت کے قید خانے سلاخوں سے سر ٹکرا رہے ہوں۔ کمرے میں دھیمی روشنی، بوسیدہ فرنیچر، بکھری کتابیں، خاموش موبائل اور ماضی کے ملبے تلے دبی ہوئی ایک نوجوان لڑکی، جو پرانی کرسی پر بیٹھی خاموشی سے باہر تاریک آسمان کی طرف ٹکٹکی باندھے سوچوں میں گم تھی۔ اس کا نام روشنی تھا۔ چوبیس سالہ روشنی نے ایم اے اردو کر رکھا تھا۔ وہ ایک ذہین، باصلاحیت مگر اندر سے ٹوٹی ہوئی لڑکی تھی۔ کالج میں ہمیشہ نمایاں نمبر لیتی، خوش رہنا، دوستوں ساتھ گھل ملنا، وقت کی پابند، والدین کے خوابوں کی آنکھ، یہ سب اس کا ماضی تھا مگر حال؟
حال صرف خاموش، بیزار، چڑچڑاہٹ اور وجود کی ایک ایسی قید تھی جسے کوئی سن نہیں پا رہا تھا۔ روشنی کی سوشل لائف تو بظاہر بلکل نارمل تھی مگر اندر ایک ویران خلا تھا۔ بس خاموشی، آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکے اور دل میں ہزار سوال، ظاہر میں سب کچھ درست تھا مگر روشنی کا اندر دن بہ دن خالی ہوتا جا رہا تھا۔ والدین نے اسے پڑھایا، آگے بڑھایا، ہر آسائش دی مگر وہ آسائش اس کے لیے دھوپ نکلی جس نے اس کے سارے خواب جلھسا دیئے۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ بظاہر خوش نظر آنے والی دوشیزہ اندر سے کتنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ایک لڑکی جو پورے خاندان کی عزت تھی، اب دیوار کے ساتھ سر ٹکرا کر روتی ہے اور وہ سوچتی ہے کہ آخر وہ زندہ کیوں ہے؟
ایم اے کرنے کے بعد روشنی نے نوکری کے لیے کئی اداروں کی خاک چھانی لیکن ساتھ سفارش نہیں تھی۔ ایک لڑکی تھی، ڈگری تھی مگر وقت ظالم تھا۔ ایک سال گزرا، دوسرا آیا اور تیسرا سال ہونے کو ہے اب تو خاندان اور باہر والے بھی پوچھتے ہیں کہ اب کیا کر رہی ہو؟ تو بس مسکرا کر کہتی ہے:
“جی، بس کوشش جاری ہے۔”
لیکن یہ کوشش اب نہ صرف اس کے لیے بلکہ خاندان کے لیے بھی بوجھ بن گئی تھی۔ وقت کے ظالم تھپیڑوں کے ساتھ گھر کا ماحول بھی بدلنے لگا۔ ماں کے لہجے میں تلخی آگئی:
“بیٹیاں اتنا پڑھ بھی لیں تو کیا فائدہ؟ نہ نوکری ہے، نہ عقل اور نہ ہی شوہر”
باپ بھی خاموش رہنے لگا مگر اس کی خاموشی میں بھی مایوسی چیخ رہی تھی۔ بہن بھائی اور رشتےدار اب تو ہنسنے لگے کہ “دیکھو! گریجویشن کرنے کے بعد بھی بےروزگار برتن دھوتی ہے۔”
حالانکہ کبھی کبھی وہ خود سے بھی پوچھتی کہ کیا واقعی وہ ناکام ہے؟ کہ اس کے ذہن میں یونیورسٹی کے پروفیسر کی ایک تقریر گونجی:
“تم لوگ وقت کا سرمایہ ہو، یہ معاشرے تم سب سے روشنی لے گا”
اور اب، یہ روشنی خود اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ شروع میں نیند کم ہوئی پھر بے وجہ کا بوجھ محسوس ہونے لگا، آہستہ آہستہ باتیں کرنا مشکل ہو گئی اور بالآخر روشنی خود سے ہی چھپنے لگی تھی۔ اب وہ کمرے میں بیٹھ کر بس ہاتھوں کی لکیریں ہی گنتی رہتی تھی مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ ایک ایسی قید میں جکڑی جا رہی ہے جس کی سلاخیں نظر نہیں آتیں۔ ایک دن روشنی نے ہمت اکھٹی کرکے نوکری تلاش کرنے کے لیے گھر سے نکلی تو اسے یہ سننے کو ملا کہ ہمارے پاس ابھی سیٹ موجود نہیں ہے۔ دوسری جگہ ایک پروفیسر نے یہ کہا کہ:
“آپ کے پاس تو تجربہ نہیں ہے۔”
تنہائی کا طوق، ماں کا تلخ لہجہ اور طعنے، نہ باہر کی دنیا اسے سکون سے جینے دے رہی تھی اور نہ ہی اندر کی دنیا اسے مرنے دیتی۔ دن بھر سکرول کرنا اور رات کو ہزار سوالوں میں جکڑی، سوچوں میں مگن رہنا اس کا معمول بن گیا تھا۔ وقت اسے پیچھے چھوڑ چکا تھا۔ وہ خود سے باتیں کرتی:
“مجھے لگتا ہے میں کچھ نہیں ہوں، مجھے اپنی سانسیں بوجھ لگتی ہیں، میں جینا نہیں چاہتی لیکن مرنے سے ڈرتی ہوں۔ میں، وقت کی قیدی ہوں، وقت جو رکتا نہیں مگر مجھے چلنے نہیں دیتا۔”
یہ الفاظ کہنے کے بعد اس کے آنکھوں سے آنسوں ایسے گرے جن کا بوجھ کئی برسوں سے اس کے دل میں تھا اور جب اس کا دل ٹوٹ کر رویا تو اس نے پرانا قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کیا۔
“میرا نام روشنی ہے مگر میں اندھیرا ہوں، میں ناکام نہیں ہوں بس اس دروازے کے سامنے ہوں جس کی چابی وقت نے چھین رکھی ہے۔ میں ایک قیدی ہوں، اپنی تعلیم کی، معاشرے کی توقعات کی، والدین کے خوابوں کی اور خود اپنے ہی وجود کی۔”
یہ وہ خود سے نہیں لکھ رہی تھی بلکہ اس کا اندر چیخ رہا تھا۔ ایک اجنبی سی آہٹ، کچھ دن بعد اس نے بغیر کسی امید اور بغیر کسی مقصد کے یہ تحریر پوسٹ بنا کر اپنے انسٹاگرام پیج پر لگائی۔ دن گزرتے گئے اور اس کی پوسٹ پر ہزاروں لائیکس اور کمنٹس تھے۔
“یہ تو ہماری کہانی ہے، آپ نے تو دل کی بات چھین لی۔ کیا آپ نے میرے دل کی آواز لکھی ہے؟ آپ ناکام نہیں ہو، آپ ایک آئینہ ہو۔”
نہ نوکری ملی اور نہ شادی کی کوئی تجویز، لیکن اسے مل گئی خود کی پہچان، خود کا عکس اور آج پہلی بار روشنی نے محسوس کیا کہ وہ اس دنیا میں اکیلی نہیں ہے، صرف اسی کو نہیں سماج نے ٹھکرایا۔ اس جیسے اور بھی بہت ہیں جنھیں دنیا ٹھکرا چکی ہے مگر انہوں نے ہار نہیں مانی۔ اس نے محسوس کیا کہ قلم کی طاقت ہی ہے جو وقت کی قید سے نجات دلا سکتی ہے۔ اب روشنی ہر روز لکھتی تھی۔ اپنی کہانی، اپنے زخم، اپنے سوال اور وہ سب جو وہ سوچتی تھی، جو کسی سے کہہ نہیں پاتی تھی۔ اسے لگا کہ جیسے لفظوں کی اس دنیا نے اسے گمنامی سے نکال کر پہچان کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ اب وہ لفظوں کی مزدور تھی۔ ہر لفظ اس کی پہچان بن چکا تھا۔ دیوار پر لگی گھڑی اب بھی چلتی ہے لیکن اب وہ وقت کی قیدی نہیں بلکہ وقت کے ساتھ چلنے والی مسافر ہے۔
Leave a Reply