تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
تھپڑ کا لفظ ذہن میں آتے ہی چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی کسی قسم کی خوشگواری کا احساس بھولے سے بھی نہیں ہوتا. اور یہ تھپڑ علی الصبح اس نے مذاق ہی مذاق میں میرے دایں گال پہ جڑ دیا تھا بالکل ایسے ، جیسے کوی مہمان کی چاے کے کپ میں بنا پوچھے ہی چینی ڈال دے، نہ ہی مجھے اور نہ ہی گردونواح میں اس تھپڑ کی گونج سنای دی نہ ہی کسی نے غور کیا، کاروان حیات جس طرح اس تھپڑ کے لگنے سے پہلے چل رہا تھا، تھپڑ لگ چکنے کے بعد بھی ویسے ہی چل رہا تھا، روبی آپی دھلے ہوے برتنوں کو سوتی نیلے رنگ کے نیپکن سے صاف کیے جا رہی تھیں جی وہی نیپکن جس کے چاروں کونوں پہ سورج مکھی کے بڑے بڑے پھول بنے ہوے تھے، مجھے اچھی طرح سے یاد تھا کہ یہ سوتی نیپکن امی جان نے منگل بازار سے بڑی. لمبی بحث کے بعد خریدا تھا، خیر بات ہو رہی تھی بے آواز تھپڑ کی جو بھرے مجمعے میں ہمیں لگا کر صبوحی بڑے آرام سے اپنے کمرے میں جا کر مزے سے ناذیہ حسن کا مشہور زمانہ گانا سن رہی تھی، آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آے، بات بن جاے بات، بات بن جاے، رمضانہ فرشی جھاڑو سے لمبے صحن کی صفائی میں بڑی دل جمعی سے مصروف تھی، تھپڑ میرے گال پہ جس زور سے لگا تھا، اس نے میرے منہ پہ رمشا آپا کے ہاتھ کا نشان ضرور بن چکا تھا، اس زور کی چپیڑ کھا کے مجھے واقعی میں دن میں تارے نظر آ گیے تھے، کبھی غور کیا ہے کہ تھپڑ کیوں مارا جاتا ہے دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں ایک تو شدید غصے کی حالت میں، دوسرے شدید بے بسی کی حالت میں، اب رمشا آپا نے جو تھپڑ عین میری منگنی سے چند گھنٹے پہلے میرے منہ پہ انتہائی ماہرانہ اور ڈھکے چھپے انداز میں مجھے مارا تھا اور پھر موقع واردات سے غایب ہو گءی تھیں، مجھے بہت کچھ باور کروانے کے لیے بہت کافی تھا. مجھے جو بات پچھلے کءی مہینوں سے سمجھ نہیں آ رہی تھی رمشا آپی کے تھپڑ نے ایک پل میں سمجھا دی تھی، اب اپ شاید سمجھیں کہ رمشا آپی کوی سڑیل، نک چڑھی، استانی ٹایپ کی پرانے زمانے کی فرسودہ اور پرانے زمانے کی کوی بڈھی روح قسم کی خاتون ہیں، جو نہ خود جیتی ہیں نہ دوسروں کو جینے دیتی ہیں ایسا کچھ نہ تھا رمشا آپا اسسٹنٹ کمشنر ہیں، کشمنر صاحب کی بیگم صاحبہ، دو گول مٹول بیٹوں، ارحم اور صالح کی اماں جانی اور میری بہت ہی پیاری سی آپا، ہوا کچھ یوں تھا کہ آپا چند مہینوں سے اپنی ٹریننگ کے سلسلے میں ملک سے باہر تھیں اسی دوران میرے لیے ملک ریحان کا رشتہ آیا، چونکہ کھاتے پیتے اور اچھے خاندانی لوگ تھے تو معمولی تحقیق کے بعد رشتہ منظور کر لیا گیا اور آپا کی وآپسی پہ باقاعدہ طور پر منگنی کی رسم کی ادای کو موخر کر دیا گیا اس دوران آپا سے بھی کبھی کبھار بات ہو جاتی تھی ان کے آنے سے چند روز پہلے میں نے آپا کو ملک ریحان کے مختصر کوایف بمع تصویر کے روانہ کر دییے، اب اتفاق ایسا ہوا کہ آپا اپنی ٹریننگ مکمل کر کے میری منگنی کی تقریب سے چند گھنٹے پہلے ہی گھر پہنچیں جب منگنی کے فنکشن کی تیاریاں تقریباً مکمّل ہو چکی تھیں زیادہ تر مہمان بھی گھر پہنچ چکے تھے میں بیوٹی پارلر جانے کے لیے کپڑے لینے جونہی کمرے میں داخل ہوی آپا نے بغیر شور شرابے اور مجھے تماشا بناے مجھے تھپڑ جڑ دیا تھا مجھے دن میں تارے تو نظر آے سو آے لیکن آپا کے اس تھپڑ میں مخفی پیغام مجھے فوراً سے بھی پہلے سمجھ آچکا تھا، آپا نے واضح طور پر مجھے ریحان ملک سے منگنی کو روکنے کا پیغام دیا تھا. اب یہ مت پوچھیے گا کہ اس تھپڑ کے بعد میں بیہوش کیسے ہوی، مجھے ہسپتال کیسے لے جایا گیا اور لڑکے والوں کو منگنی سے روکا کیسے گیا،رمشا آپا کی احسان مند ہوں کہ انھوں نے اپنی فراغت کے لمحات میں فرحان ملک کی اچھی طرح سے چھان بین کروا کے اس بات کی تصدیق کروای کہ موصوف پہلے سے شادی شدہ اور تین بچوں کے باپ ہیں اور یہ ساری حقیقت چھپا کر مجھ معصوم سے دوسرا بیاہ رچانے جا رہے ہیں، رمشا آپا نے میرے ہسپتال جانے کے بعد نہ صرف حالات کو سمبھالا بلکہ ملک صاحب کو بھی چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا، بعد میں میری شادی رمشا آپی کے دیور جو کہ مکینیکل انجینئر سے ہوی، قدر کیجئے اس تھپڑ کی اور تھپڑ مارنے والوں کی جو ہماری فلاح اور بقا کے لیے ہمارے پیارے ہمیں مارتے ہیں سچ پوچھیے تو ایسے تھپر ہمیں سنوارتے ہیں.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور drpunnamnaureen@gmail.com
Leave a Reply