rki.news
صالحہ حیات بڑی بھولی بھالی، سادہ سی بچی تھی، اس کے لیے زندگی پھولوں پہ اڑتی ہوی آزاد تتلی جیسی تھی, وہ صبح اپنے سکول جا کر اور شام کو اپنی امی کے ہاتھ سے بنا ہوا مزے دار کھانا کھانے کو ہی زندگی سمجھتی تھی، اسے کیا خبر تھی کہ جیون دھارا کو پار لگانے کے لیے غم کے کتنے کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں،
کٹھنایوں کے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں تب جا کے ملا کی ڈولتی ہوی نیا کنارے لگتی ہے، مگر یہ سب مصایب تو بڑے جھیلتے ہیں ناں، صالحہ حیات جیسے چھوٹے بچے اس دکھ سے بھلا کیسے آگاہ ہوں? کہ جیون دھارا کی الٹی چالیں کبھی کبھی کتنا رلاتی ہیں، اب یہ تو درد کی شدت پہ. منحصر ہے کہ رونا آنسوؤں والا ہویا پھر بنا آنسوؤں کے. تو صالحہ حیات کو اٹھائیس اگست سے پہلے زندگی کی مشکلات کا کچھ خاص انداز نہ تھا، مطلب زندگی بڑی موجوں میں گزر رہی تھی، سکول سے گھر اور گھر سے سکول، سکول سے واپسی پہ ماں کے گھر کے کام کاج میں ہاتھ
بٹا کے شام کو ابا سے ہوم ورک کر کے رات کو دادی سے کہانی سن کے سو جانے والی صالحہ کو دس سالہ زندگی بہار ہی کے رنگ میں ملی تھی، اس کی گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے والی تھیں،
اس نے چھٹیوں کا کام بڑی نفاست اور صفائی سے کر رکھا تھا، بس وہ بڑی بے تابی سے چھٹیوں کے ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ اسے اپنی محنت پہ بڑا مان تھا، ہاے یہ مان بھی ناں، بڑی آس امید ہوتا ہے، ہم مان کی سیڑھی پہ ہولے ہولے قدم رکھتے ہوئے کے ٹو اور ہمالے سر کرتے رہتے ہیں.تو صالحہ نے بھی اپنے چھٹیوں کے کام والا رجسٹر سنبھال کے دادی کے ٹرنک میں رکھ چھوڑا تھا، برسات کا موسم تھا، صبح سے ہی ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی، ناشتے کے بعد سارے ہی اپنے اپنے کام کاج میں مصروف تھے، ابا صبح سویرے ہی اپنی ڈیوٹی پہ جاچکے تھے، اماں گھر بھر کے کپڑے دھونے میں لگی ہوی تھیں، اچانک گھنٹی بجی، یوں لگتا تھا جیسے کوی گھنٹی پہ ہاتھ رکھ کر ہی بھول گیا ہو، صالحہ ننگے پاوں دروازے کی طرف دوڑی، اور اس نے اپنے ابا کو انتہائی بے بسی کے عالم میں دو لوگوں کے سہارے کھڑے دیکھا، انھیں شدید تکلیف تھی اور وہ درد کی شدت سے الٹے سیدھے ہو رہے تھے، محلے والوں نے انسانی ہمدردی کے تحت ایمبولینس منگوا دی، اماں نے ساری جمع پونجی اپنے بٹوے میں ڈالی، دادی کو گھر کی حفاظت کا کہہ کے، اماں اور صالحہ ایمبولینس میں درد سے کروٹیں بدلتے ایک بے بس اور لاچار مرد کے آس پاس اپنی انتہائی بے بسی اور لاچار ی کے ساتھ بیٹھ گیے، ایمبولینس بڑی تیز رفتاری سے ہوٹر بجاتی ہوی دل کے ہسپتال کی طرف رواں دواں تھی کہ اچانک پل پہ گاڑیوں کی لمبی قطاروں، بری طرح کے ٹریفک جام نے صالحہ اور صالحہ کی ماں کو واقعی میں میں تارے دکھا دیے، قصہ کچھ یوں تھا کہ حالیہ بارشوں کی تباہ کاریوں نے سیلاب کے امکان کو بڑھاوا دے دیا تھا، تو اسی سیلابی ریلے کی جانچ کاری کے لیے بادشاہ وقت اپنی پوری ٹیم کے ساتھ دریا کامعاینہ کر رہا تھا، اور دونوں طرف سے آنے والی ٹریفک متواتر پچھلے کءی گھنٹوں سے بند تھی، اور اسی ٹریفک جام میں صالح کے باپ کو ایک سے دوسرا ہارٹ اٹیک ہو گیا، وہ بد نصیب جان کی بازی ہار گیا، صالح کی ماں بیوہ اور صالح یتیم ہو گءی، ایک چراغ بجھ گیا، کہانی اچانک ہی ڈراونی اور بھیانک ہو گءی، صالحہ نے جب اپنی ماں کو خون کے آنسو روتے دیکھا تو اس کے ننھے دل میں یہ آی کہ کا ش اس بادشاہ کو کسی طرح سے یہ خبر مل جاے کہ اس کے اس دورے نے ننھی صالحہ کو یتیم اور اس کی جوان ماں کو بیوہ کر دیا ہے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ بادشاہوں کو عوام کے مسائل کی خبر ہی تو نہیں ہو پاتی.
کاش شاہوں کو بھی خبر ہوتی. بادشاہوں کو بھی خبر ہوتی
اندھے، بہرے سماج کو بھی اور
کم نگاہوں کو بھی خبر ہوتی
بھوکے ،سو جانے والوں کو بھی اور
تخت مسند پہ بیٹھنے والے
حکمرانوں کو بھی خبر ہوتی
کاش حکمران گونگے، بہرے اور اندھے نہ ہوتے
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam Naureen I @cloud.com
Leave a Reply