عہدِ وفا سے لحدِ جفا تک
آج سے 49 سال قبل کی بات ہے ۔۔۔(8 مارچ 1975) کو وہ حجرہِ عروسی میں سجی میرے پاس آئی تھی۔۔۔
وہ میرے خوابوں خیالوں سے نکل کر حقیقت میں اب میرے زہن و دل کی ملکہ بن چکی تھی ۔۔میں اب میں تنہا نہ رہا تھا مجھ پر گزرتے ماہ و سال ۔۔. اور اُس کی مضبوط رفاقت جب تک میرے ساتھ رہی میرے گمان پر یہ حقیقت غالب رہی جشحششفج بقول ساحر
“کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے مرے لئے”
۔۔۔۔تو اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھیں کہیں
تجھے زمیں پہ بلایا گیا ہے مرے لئے
وہ میری زندگی میں قسمت کے ستارے کی مانند ہی تو اتری تھی سو میں نے اسی نسبت سے اسے پروین (معنوی اعتبار سے ستاروں کا جھرمٹ) کہنا شروع کیا۔
میں نے اپنی پروین (خالدہ) کے ساتھ عمر کے بےشمار نشیب و فراز دیکھے وہ ہر خوشی میں میری ساتھ ہنستی تو دکھ میں ساتھ روتی بھی تھی۔۔۔
ہم دونوں سکھ دکھ کے ساتھی ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے بہترین دوست بھی تھے۔ ہم عہدِ وفا کے ساتھی، اور خاندان بھر میں محبتوں کے ترجمان ٹھہرے تھے۔ وہ حقیقتاً میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی تھی۔
26 اکتوبر 2021ء کی صبح میری زندگی کا سب سے المناک دن تھا جب میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی مجھے عمر بھر کی داغِ رفاقت دے گیا ہماری رفاقت کے گزرے 46 سال کا سفر آج تمام ہوا تھا۔
آج اس کی تیسری برسی کے موقع پر میرے پاس وہ الفاظ نہیں جس سے ۔میرے دل کا وہ کرب عیاں ہوسکے۔۔۔ جو اس کے بغیر بیت رہا ہے۔۔۔ مگر
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
میری پروین عہدِ وفا سے لحدِ جفا تک میرے لئے اب زندگی بھر تنہائی رکھ کر جھوڑ گئی۔۔۔ اور خود پھر سے ستاروں کے اُسی جہاں میں جا بسی۔۔۔۔ جہاں سے اسے بلایا گیا تھا میرے لئے۔۔۔۔
پروین تم جنت الفردوس میں خؤش رہو۔ ان شاءاللہ ہماری وہاں ملاقات ایک بار پھر ہو گی، آمین
تمہارا سلیم
ہیوسٹن (ٹیکساس) امریکہ
Leave a Reply