Today ePaper
Rahbar e Kisan International

عیدالاضحیٰ کے لیے سپیشل مضمون عنوان. اس عید قربان پر چھری اپنے نفس پہ چلانی ہے

Articles , Snippets , / Thursday, June 5th, 2025

rki.news

تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
عید قربان، عیدالاضحیٰ یا بڑی عید، کا تصور ذہن میں آتے ہی بکرے، دنبے، بچھڑے، گاییں، بیل اور اونٹ نگاہوں کے سامنے آ جاتے ہیں، عید کے لفظی معنی خوشی، مسرت، راحت اور چہل کے ہیں، تو عیدالفطر مسلمان ماہ رمضان کے روزے اور عبادات میں سرخرو ہونے پہ مناتے ہیں اور عیدالاضحیٰ، سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے مناےے ہیں ، جب حضرت ابراہیم علیہ اسلام، آج سے تقریباً چار ہزار سال قبل حکم ربی کی بجا آوری کرتے ہوے اپنے تیرہ سالہ بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے مشن میں کامیاب ہو گیے، اللہ پاک کو اپنے بندے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی تابعداری، پسند آ گءی تو اس اطاعت کے صلے میں ایک دنبے کو بھیج کر ذبح کروا دیا گیا اور فرمانبردار بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بچا لیا گیا. اسی سنت کی یاد تازہ کرتے ہوے پوری دنیا کے مسلمان ذی الحج کی دس، گیارہ اور بارہ کو مغرب سے پہلے جانوروں کی قربانی دے کر عیدالاضحیٰ مناتے ہیں، قربانی ہر عاقل، بالغ اور صاحب نصاب مسلمان پہ فرض ہے.
فلسفہ عید قربان بڑا واضح ہے، اطاعت خداوندی اور نفس کی قربانی.
اطاعت خداوندی
سے مراد اللہ پاک ے تمام احکامات کی بلا چون و چرا بجا آوری ہے، جیسے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں اللہ تعالیٰ نے اپنی سب سے قیمتی اور محبوب شے کی قربانی کا حکم دیااور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ پاک کےحکم کی تعمیل کرتے ہوے اپنے لاڈلے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو صدق، خلوص اور نیت کے ساتھ اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کر دیا، اللہ پاک، باپ اور بیٹے کی فرما نبرداری سے اتنا خوش ہوا کہ بیٹے کو بچا لیا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چھری سے جنت سے بھیجا گیا دنبہ ذبح ہو گیا، بے شک اللہ پاک ہماری نیتوں اور دلوں کے بھید سے مکمّل طور پر واقف ہے. کبھی غور فرمائیے گا کہ کیا آپ نے بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل اس طرح سے کی ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی، کیا شان ابراہیمی ہے کہ اللہ پاک کی وحدانیت ساری دنیا کو دکھانے کے لیے بے خطر آگ میں بھی کود گیے اور بے دھڑک بیٹے کو بھی قربان کر دیا، اسی جذبے کو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کچھ یوں بیان کیا ہے.
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشاے لب بام ابھی
رب محبت ہے اور جب رب سے محبت کی جاتی ہے تو وہ پھر انتہاے محبت کر دیتا ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان دونوں واقعات میں اللہ کی بندے سے محبت انتہا وں پہ دکھای دیتی ہے، تو اطاعت خداوندی فلسفہ عید قربان کا پہلا اصول ہے، اللہ پاک نیکی کا حکم اور برای سے منع کرتا ہے، اللہ پاک سچ بولنے کا حکم دیتا اور جھوٹ بولنے سے منع فرماتا ہے. ناپ تول میں کمی بیشی اور ذخیرہ اندوزی و ملاوٹ سے منع فرماتا ہے، رشوت، بناوٹ ،سفارش، دوسروں کی حق تلفی سے روکتا ہے، ناجائز منافع خوری سے منع کرتا ہے، حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بجا آوری پہ بہت زور دیا گیا ہے، ایک دوسرے کے جان و مال اور عزت کا احترام ہر انسان پہ لازم ہے، لیکن افسوس صد افسوس چونکہ ہم نے اللہ پاک کی تعلیمات سے کنارہ کیا، تو آج پوری دنیا کے لوگ ایک عجب طرح کی بے چینی، خوف اور کرب میں مبتلا ہیں. کشمیرسے ہوتے ہوئے فلسطین تک جہاں بھی نظر دوڑائیں، انسانیت شدید خطرے میں ہے، ایسے میں امن کے داعی بس اپنے آپ کو اسی طرح طفل تسلی دے سکتے ہیں کہ
یہ داستان ستم ختم ہونے والی ہے
شام ڈھلنے والی ہے سحر ہونے والی ہے.
اپنے نفس کی قربانی
انسانی جسم کے اندر دو مخفی طاقتیں ہیں ایک کو نفس اور دوسری کو روح کہتے ہیں، نفس شیطانی خیالات، برائیاں اور وہ تمام خواہشات و آلایشات ہیں جو ہمیں صراط مستقیم سے ہٹانے کے جتن میں صبح سے شام مصروف کار رہتی ہیں اور روح وہ پاک طینت فرشتہ ہے جو انسان کو صبر، ایمان اور وجدان کے چولوں میں آخرت کے سفر کی تیاری کے لیے تیار کرتا ریتا ہے، گویا روح اور نفس دونوں ایک دوسرے کے متضاد ہوے، ایک دوسرے کی ضد ہوے، ہر انسان کو اس نفس اور روح کی لڑائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی روح پاکیزہ ہوتی ہے وہ اپنے نفس کو بڑی آسانی سے شکست دے کر چاروں شانے چت کر دیتے ہیں اور اللہ کے پسندیدہ لوگوں میں سے ہو جاتے ہیں ان کی دنیاوی خواہشیں اور بشری تقاضے بڑے محدود ہوتے ہیں وہ ہجوم میں ایک چہرہ ہوتے ہیں. انہیں دنیاوی جاہ و جلال اور ستایش کی قطعاً کوی پروا نہیں ہوتی، وہ اللہ کے پسندیدہ بندوں میں سے ہوتے ہیں اور بڑے مظبوط ارادوں کے مالک ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اس مظبوط طاقت کی راہنمائی حاصل ہوتی ہے جس کی طاقت اور اختیارات لامحدود ہیں بس تمام کاینات اس کے کن کی محتاج ہے، تو موجودہ دور کا انسان کیسے اپنے نفس کی قربانی دے جب کہ سارا عالم ہی نفسانفسی، بے جا نمود و نمایش اور بناوٹ کی دلدل میں دھنستا ہی چلا جا رہا ہے اپنے لیے اچھی سے اچھی اور مہنگی سے مہنگی اشیاء کا حصول اور دوسروں کے لیے گھٹیا اور معمولی چیزوں کا انتخاب تو شروعات اس عید قربان سے کیجیے اپنے قربانی کے جانور کی گردن پہ چھری چلانے سے پہلے اپنے نفس پہ چھری چلا لیجیے گا تاکہ غریب غربا اور دوست احباب تک ہم اچھا گوشت پہنچا پاءیں اور اللہ کی بارگاہ میں اپنا تقویٰ. تمام احباب کو عید قربان مبارک ہو.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور drpunnamnaureen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International