Today ePaper
Rahbar e Kisan International

عیدِ”مسرت“

Articles , Snippets , / Tuesday, March 25th, 2025

مرادعلی شاہدؔ دوحہ قطر
ایام شباب میں میرا ایک دوست اکثر کہا کرتا تھا کہ”عید“ سال میں مجھے تین بار ملتی ہے،چھوٹی عید،بڑی عید اور عیدِمسرت،تیسری عید کا عقدہ اس وقت کھلا جب شہرِ رمضان میں اپنے ہی شہر میں اپنی محبوبہ ”مسرت“سے ملتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔میرا مشورہ ہے کہ جب بھی کسی سے مسرت سے ملیں پہلے پرکھ لیں کہ مسرت کون سے ہی ملنے والی یا جیل بھجوانے والی۔
پرائمری سکول میں تھا تو ہمارے اسلامیات کے استادِ محترم اکثر مسلمانوں کی عبادات پر معترض ہوتے ہوئے کہتے کہ اب تو نام کے مسلمان ہیں کام تو بس کاٹھ کے ہیں۔کچھ پانچ کے،بعض آٹھ اور اکثر 360 کے،اپنے معصوم وناتواں ذہن پر کبھی زور نہ دیا اور نہ ہی اس فلسفہ کی سمجھ آسکی۔ایک روز جرات آموز کو مجتمع کرتے ہوئے پوچھ لیا کہ سر کبھی اس کا معنی مفہوم ہی سمجھا دیں کہ ہربات یہ بات کند ذہن سے بالا بالا گزر جاتی ہے۔ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے فرمانے لگے کہ جو مسلمان پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں انہیں پانچ کے،جو جمعہ کے جمعہ مسجد کا رخ کرتے ہیں آٹھ کے اور جن احباب کو عید کے عید یعنی 360 دن بعد عید پر ہی رکوع وسجود کا موقع نصیب ہوتا ہے تین سو ساٹھ کا کہتے ہیں،ایک بار پھر ہمت کی اور پوچھ لیا کہ سر آپ کا شمار تو پانچ والوں میں ہوتا ہوگا،دائیں بائیں دیکھتے ہوئے بائیں آنکھ دباتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہنے لگے راز افشاں مت کیجئے گا،360 ہی سمجھو۔
میری کلاس میں ایک طالب علم تھا روزہ خان،ایک بار کچھ کوائف کے سلسلہ میں اس سے ولدیت کا پوچھا ہنستے ہوئے کہنے لگا سر ”عیدخان“ بادل ناخواسطہ میری بھی ہنسی نکل گئی۔
نماز عید میں ایک الجھن ہمیشہ ہی ستاتی ہے اور شائد سب کو ہی کہ یہ ”مع ساتھ چھ زائد تکبیروں کے“سے کیا مراد ہے۔اسی لئے نماز عید میں اکثر لوگ مولوی صاحب کے زائد تکبیر میں ہی اللہ اکبر کہنے پر رکوع و سجود میں ہوتے ہیں۔اکثر 360والے کن اکھیوں سے دائیں بائیں یا سامنے والے کو دیکھتے ہوئے اپنے عمل کو دہراتے ہیں۔اور اگر سامنے والا غلطی سے تکبیر پر ہاتھ اٹھانے کی بجائے رکوع میں چلا گیا تو سمجھو پیچھے والے بھی سب رکوع میں پڑے ہوتے ہیں۔من آنم کئی بار نماز عید میں زائد تکبیر پر جھکا ہی تھا کہ مولوی صاحب نے ایک اور تکبیر کہہ ڈالی،ایک بار تو شک ہوا کہ مولوی صاحب شائد بھول گئے ہیں لیکن ساتھ میں کھڑے کزن کی زوردار کہنی نے باور کرایا کہ یہ نماز فجر نہیں نماز عید ہے۔ایسے افراد کے لئے سب سے مشکل کام سلام کے بعد لوگوں کی معنی خیز مسکراہٹ کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔خاص کر جب کوئی شرمندہ شرمندہ اپنی صفائی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اوہ جی بندہ بشر ہے بھولنے کا نام ہی انسان ہے۔لیکن دوسروں کی معنی خیز مسکراہٹ ہی بتا دیتی ہے کہ
”اج سب پھڑے جان گے“
نماز عید کے بعد سب افراد کو خطبہ سننے کی اتنی جلدی نہیں ہوتی جتنی گھر جانے کی۔کہ گھر میں بیوی اور سویاں دونوں منتظر ہوتے ہیں۔خطبہ لوگ ایسے سنتے ہیں جیسے آج کے طالب علم اردو کا لیکچر،انہیں اردو کی سمجھ نہیں آتی اور ہمیں مولوی کی۔ہمارے علاقہ کی عیدگاہ کے مولوی کا خطبہ اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک کہ چندہ اتنا نہ ہو جائے کہ مولوی کی آنکھیں چندھیا جائے۔ایک سال تو ایسا بھی آیا کہ ادھر مولوی نے گھیر رکھا تھا اور اوپر سے بارش نے۔دونوں میں گھمسان کا رن پڑا،بالآخرمولوی جیت گیا۔کیونکہ اس کے پاس ایک نہیں دو ”رن“تھیں۔
آپ کے علم میں اضافہ کے لئے بتاتا چلوں کہ اس سال عید آخری روزہ کے بعد آئے گی اور آخری روزہ عید سے ایک دن قبل ہوگا۔لہذا جن خواتین وحضرات نے نئے کپڑے زیب تن کر کے سسرال ومیکے شریف جانا ہے آخری روزہ سے قبل ہی سلوالیں یہ سنہری موقع ہر کس و ناکس کو نصیب نہیں ہوتا۔میری بیگم کا بھلا ہو جس نے اس سال بھی مجھے مہنگائی اور بچت کا درس دیتے ہوئے میرے لئے پرانا سوٹ ڈرائی کلین اور اپنے لئے ”صرف“چار سوٹ سلوانے پر اکتفا کیا۔وہ تو بھلا ہو میری پڑوسن کا جس نے”درس“دیتے ہوئے فرمایا کہ فضول خرچی جائز نہیں اگر مرد کرے تو۔محترمہ کے مطابق مرد کی فضول خرچی ایک سوٹ اور خواتین کی پانچ کے بعد شروع ہوتی ہے۔اسی لئے میری والی نے چار پر ہی اکتفا کیا۔چار سوٹ سے یاد آیا کہ ایک بار غلطی سے میرے منہ سے نکل گیا کہ مرد کو چار شادیاں جائز ہیں۔تب سے اب بیگم نے چار سے کم کبھی سوٹ نہیں سلوائے۔وجہ پوچھی تو بڑی بڑی انگار بھری آنکھیں دکھاتے،شرماتے ہوئے بولی میرا تو ایک ہی سوٹ ہے باقی تو میری ”سوتنوں“کے لئے ہیں،اب اتنا تو میرا حق بنتا ہے نا۔عجب خاتون ہے سوٹ ہی لاتی ہے سوتن نہیں۔
بچپن میں ”کھوپے والی عینک“لگانے میں مسرت ومستی اب Ray ban میں بھی طمانیت نہیں،ریڑھی والے سے دس پیسہ کی شکرقندی،پانچ پیسہ کا برف والا گولہ،اور چنے کھا کر ایسا لطف آتا کہ اموووووں،اب فائیو سٹار میں انواع و اقسام کے کھانے کھا کر بھی وہ سکون ولذت نہیں۔دس پیسہ سے تانگہ پر بیٹھ کر بار بار عید گاہ سے اسٹیشن اور پھر واپس عید گاہ آکر ایسے فخر محسوس کرتے جیسے قلع فتح کر لیا ہو اور وہ بھی لال والا۔اور اب بیش قیمت کار میں بھی وہ سکون کہاں۔
شائد اس لئے کہ ہم نے فلسفہ عید کو بھلا دیا۔جس میں اپنوں سے ملنا بلکہ کبھی کبھار تو باپ کو گلے لگانے کیلئے سال بھر انتظار کرنا۔اب سب کچھ ہے باپ کے سینے کا وہ لمس کہیں معاشی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔اسی لئے لوگ اب عید کا انتظار نہیں کرتے بلکہ عید منتظر رہتی ہے کہ کب آئے اور لوگوں کو ایک ساتھ دیکھ سکے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International