تازہ ترین / Latest
  Friday, October 18th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

عین موقع پہ اس نے نہ کر دی

Articles , Snippets , / Tuesday, September 3rd, 2024

شہر کا سیون سٹار ہوٹل جہاں داخلے کے لیے بھی جیب کا وزنی ہونا فرض تھا صنم ذوالفقار سرخ عروسی جوڑے اور سولہ سنگھار سے لیس قیامت سے پہلے کی قیامت لگ رہی تھی. چہار اطراف رنگ و نور کی فراوانی تھی برقی قمقمے جل بجھ رہے تھے ایلیٹ کلاس نمود و نمایش کے فل موڈ میں تھی. یہ مال و دولت بھی نہ انسان کو اس کی اوقات ہی بھلا دیتا ہے بندہ ہواوں میں رقص کرنے لگتا ہے اور اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا عین اپنا حق سمجھتا ہے. فوٹو شوٹس اور مووی کی طرح اندازیوں میں برات کے آنے کا شور و غوغا اٹھا، دولہا خرم سبطین ایک اچھی فرم میں اچھی پوسٹ پہ تھا سروقد، وجہیہ خرم سبطین پہ نظر ٹکتی نہ تھی مگر حسن اور نصیبے کی بازی لگ چکی تھی مہمانوں کے کھانے کے دوران ہی نکاح خوان نے جب دولہن رانی سے قبول ہے قبول ہے کی بابت پوچھا تو سولہ سنگھار سے لیس بنو رانی نے ہزاروں کے مجمع میں بہت ہی زور سے نہیں، نہیں، نہیں کہہ کے نہ صرف اپنے والدین کی عزت کا جنازہ نکال دیا. بلکہ عزت سے برات لانے والوں کو بھی سر عام تماشا بنا دیا. ایسے ہی ہوتے ہیں کم ظرف، کوتاہ نظر اور بد نصیب بلکہ حقیقی معنوں میں سیاہ بخت.
سیاہ بخت
وہ سیاہ بخت تھا
بخت ہارا ہوا
بخت کے تخت سے اتارا ہوا
اتنا خود غرض اور بے حس
اپنی ہی خواہشوں پہ وارا ہوا
تو صنم ذوالفقار ایلیٹ کلاس کی انتہائی بگڑی ہوی ریس زادی تھی جسے ایک انجان امیر زادے سے سوشل میڈیا پہ ہی محبت ہو گءی تھی اور پھر اس سوشل میڈیای محبت اور عہد و پیماں نے اتنی قیامت ڈھای کہ صنم نے اپنے سوشل میڈیای عاشق کے کہنے عین اپنی رخصتی سے پہلے نکاح کے وقت انکار کر دیا تھی نہ ناعاقبت اندیش سیاہ بخت، اس کے عاشق نے اسے یہ آس دلا رکھی تھی کہ جونہی تم نکاح سے انکار کرو گی میں آکے سارے معاملات سمبھال لوں گا اور تمہیں دولہن بنا کے گھر لے جاوں گا مگر
حسرت ان غنچوں پہ
جو بن کھلے مرجھا گیے
یہ تو سوشل میڈیای فلرٹ تھا جس کا شکار ایک بھولی بھالی، انیس سالہ امیر زادی اس بری طرح ہوی کہ اپنے والدین کے ساتھ ساتھ آنے والوں کو بھی ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی خیر اسی وقت صنم کی خالہ زیرک فاطمہ نے اپنی اکلوتی اور ہونہار بیٹی شیریں بہزاد کو نکاح کے لیے راضی ہی نہ کیا بلکہ دولہا والوں کو بھی رضا مند کر لیا دیکھے بھالے اعتماد والے لوگ تھے شیریں، ذوالفقار کی ہوی سوگ خوشی میں بدل گیا، اور صنم اپنے خیالی محبوب کے قدموں کی چاپ کا انتظار کرتے کرتے پاگل خانے پہنچ گءی.
نام لے لے کے تیرا اے الفت
لوٹنے والوں نے کیا کیا لوٹا
زندگی میں بڑے بڑے واقعات میں لوگ ایسے ایسے کارہاے نمایاں سر انجام دیتے ہیں کہ ہم بھی اور آپ بھی نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبانے پہ مجبور ہو جاتے ہیں. محمود، نازی کا ہمسایہ تھا اسی سانولی سلونی نازی بچپن ہی سے بہت پسند تھی
وہ بچپن سے جوانی تک نازی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے ہزار جتن کرتا رہا مگر نازی نے اس کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھک ہار کے محمود نے نازی کے گھر رشتہ بھیج دیا منگنی مہندی سے برات کا دن آ پہنچا اور محمود نے عین نکاح والے دن نازی سے نکاح سے انکار کر کے اپنی کمینگی کا سر عام ثبوت دے ہی دیا نازی کی شادی خرم نیازی سے ہو گءی جو اس کے لیے بڑی ہی باسعادت اور مبارک ثابت ہو ی. واقعی میں تقدیر بنانے والا بہتر جانتا ہے کہ کس شخص کے لیے کیا چیز کتنی سود مند یا نقصان دہ ہے.
یہ وہ معدودے چند واقعات تھے جس میں انسانی حماقت اور عداوت اپنے اپنے بام عروج پہ دکھائی دیتی ہے صنم بالی عمر کی لڑکی عشق کے دھوکے میں پاگل خانے جا پہنچتی ہے اور ناذی، محمود نامی درندے کی وحشت سے پناہ پا کے آسودگی کی پناہوں میں چلی جاتی ہے. لیکن کبھی کبھی بڑے میچور، سنجیدہ اوربالغ نظر لوگ بھی اس ذہنی ناپختگی اور نابالیدگی کا سر عام مظاہرہ کرنے سے نہیں چوکتے. سبطے روشان نہ صرف ایک اچھی شاعرہ بلکہ ایک اچھی افسانہ نگار بھی تھی ہاں اپنے کام سے کام رکھنے والی گھریلو خاتون تھی جس کا بنیادی مقصد گھر شوہر اور بچے تھے صاف الفاظ میں شاعرہ شمع محفل نہ تھی اس کی تیسری کتاب کی تقریب رونمائی تھی جس میں شہر کے تقریباً تمام ہی نامی گرامی شاعروں اور شاعرات کو مدعو کیا گیا تھا تمام ادبی دانشوروں نے آنے کا وعدہ بھی کیا تھا مگر عین تقریب سے چند گھنٹے پہلے تمام اہل علم و دانشواران کو کوی نہ کوئی ایسا ضروری کام پڑ گیا کہ سب نے آنے سے معذرت کر لی اب بیچاری سبطے روشان یہاں سواے اپنی بے بسی اور بیچارگی کا ماتم منانے اور صبر کے کڑوے گھونٹ بھرنے کے اور کیا کر سکتی تھی.
زمانہ چال اپنی چل چکا تھا
کوی مرنے سے پہلے مر چکا تھا
زمانہ ہمیشہ سادگی کا مذاق اڑاتا رہا ہے اور ان کا حق، خراج سمجھ کے وصول کرتا ہے
اور وقت کی ایک ٹاپ کلاس سنگر جس نے اپنی شہرت کو بین الاقوامی سطح پر بھی منایا اس غضب کے سیاسی پھندے پھینکے کہ کسی اور گلوکارہ کو اپنے سامنے ٹھہرنے ہی نہ دیا کءی خوش الحان اور خوش شکل گلوکاراوں کو کءی لوگوں کی ملی بھگت سے کھڈے لین لگا کے میدان تو جیت لیا مگر کءی اہل ہنر اور قابل لوگوں کی بد دعاووں سے نہ صرف گھر آنگن چوبارے گلیاں برآمدے بھر لیے بلکہ خود بھی ساری عمر کے لیے در بدر ہی رہیں.
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
اور یہ تو universal truth ہے کہ اہل حق اور اہل سچ کے حصے میں دکھ، غم، اذیتیں اور کٹھنایاں زیادہ ہی نہیں بہت زیادہ ہیں اور اگر اس سچ کی داعی کوئی عورت ہو تو پھر تو اہل دنیا کا بس نہیں چلتا کہ اسے وہاں لے جا کے بے بسی کی موت ماریں جہاں پینے کو پانی بھی نہ ہو. اور اپنی ہی اس نظم پہ اختتام
وہ مجھے اس جگہ جا ماریں گے
وہ مجھے اس جگہ جا ماریں گے
جہاں پھولوں کے ر نگ پیلے ہوں گے
جہاں خوشیوں کے پل تھوڑے ہوں گے
جہاں کنوئیں سبھی خالی ہوں گے
جہاں آسماں کا رنگ سنہرا ہو گا
لوگ لوگوں سے خار کھایں گے
وہ مجھے اس جگہ جا ماریں گے
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrounnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International