Today ePaper
Rahbar e Kisan International

غازی علم الدین شہید، حرمتِ رسول ﷺ کا عظیم محافظ

Articles , Snippets , / Sunday, July 20th, 2025

rki.news

تحریر: احسن انصاری

برصغیر کی تاریخ میں کئی ایسے نوجوان مسلمان گزرے ہیں جنہوں نے اپنے دین، عقیدے اور حرمتِ رسول ﷺ کے لیے بے مثال قربانیاں پیش کیں۔ ان میں سب سے نمایاں اور روشن نام غازی علم الدین شہید کا ہے، جو ایک عام سے گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک غیر معمولی کردار کے مالک نوجوان تھے۔ ان کا عشقِ رسول ﷺ ایسا سچا اور پرخلوص تھا کہ وہ نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی برداشت نہ کر سکے اور اپنے خون سے اس گستاخ کا خاتمہ کر کے پوری امت مسلمہ کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے جگہ بنا گئے۔

علم الدین شہید 4 دسمبر 1908ء کو لاہور کے ایک محنت کش گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد طالع دین پیشے کے لحاظ سے بڑھئی تھے۔ علم دین نے کوئی اعلیٰ تعلیمی ادارہ نہیں دیکھا، لیکن ان کے دل میں دین، ایمان، غیرت اور رسول اکرم ﷺ کی محبت بچپن سے ہی رچی بسی ہوئی تھی۔ وہ ایک خاموش طبیعت، سادہ زندگی گزارنے والا مگر دلیر نوجوان تھا۔

1920ء کی دہائی میں برصغیر میں ہندو مسلم کشیدگی عروج پر تھی۔ ایسے میں ایک ہندو ناشر راجپال نے 1924ء میں ایک ناپاک کتاب شائع کی، جس میں رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس پر نازیبا اور گستاخانہ کلمات درج کیے گئے۔ مسلمانوں نے اس کتاب کے خلاف شدید احتجاج کیا اور عدالتوں سے رجوع کیا۔ کئی سال تک مقدمہ چلا، لیکن انگریز حکومت اور عدالت نے راجپال کو بری کر دیا۔ اس فیصلے نے مسلمانوں میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑا دی۔ عوام نے محسوس کیا کہ جب قانون حرمتِ رسول ﷺ کی حفاظت نہیں کر سکتا، تو پھر ایک عاشقِ رسول ﷺ کو ہی یہ فریضہ ادا کرنا ہوگا۔

یہ وہ وقت تھا جب 19 سالہ نوجوان علم دین آگے بڑھا۔ اُس نے راجپال کو خود انجام تک پہنچانے کا عزم کر لیا۔ 6 اپریل 1929ء کو اس نے لاہور میں راجپال کی دکان میں داخل ہو کر چھری کے وار سے اُسے قتل کر دیا۔ اس جرات مندانہ اقدام نے پوری برصغیر کی فضاء کو ہلا دیا۔ علم دین نے گرفتاری دی اور عدالت میں کھلے دل سے اپنے عمل کا اعتراف کیا۔ اُس نے کہا کہ اُس نے یہ سب کچھ صرف اور صرف اپنے نبی ﷺ کی حرمت کے لیے کیا ہے، نہ کہ کسی ذاتی دشمنی یا سیاسی مقصد کے لیے۔

انگریز حکومت نے علم دین پر قتل کا مقدمہ چلایا۔ اُس وقت کے نامور وکیل محمد علی جناح نے اُن کا مقدمہ لڑا اور عدالت کے سامنے واضح کیا کہ یہ قتل محض مذہبی جذبات کی شدت کا نتیجہ ہے۔ مگر انگریز جج نے اپیل مسترد کر دی اور علم دین کو سزائے موت سنا دی گئی۔ 31 اکتوبر 1929ء کو لاہور سینٹرل جیل میں علم دین کو پھانسی دے دی گئی۔ شہادت سے پہلے اُنہوں نے بڑے اطمینان اور صبر کا مظاہرہ کیا۔ وہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہے اور آخری لمحات تک پُرامن رہے۔ اُن کا چہرہ مطمئن، آنکھیں روشن اور دل ایمان سے لبریز تھا۔

علم دین کی شہادت کے بعد ان کا جنازہ ایک تاریخی واقعہ بن گیا۔ مسلمانوں کے جذبات اس قدر شدید تھے کہ اُن کے جنازے میں چار لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی، جو اُس وقت لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تصور کیا جاتا ہے۔ لاہور کی گلیاں، بازار، چھتیں اور سڑکیں لوگوں سے بھر گئیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پورا شہر عشقِ رسول ﷺ کے ایک عاشق کو الوداع کہنے کے لیے اُمڈ آیا ہو۔ اس عظیم الشان جنازے کو تاریخی اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ یہ خالصتاً ایک نوجوان عاشقِ رسول ﷺ کے لیے تھا، نہ کہ کسی عالم، سردار یا سیاستدان کے لیے۔ علامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان اور دیگر ممتاز رہنما خود اس جنازے میں شریک ہوئے اور علم دین شہید کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس جنازے نے ثابت کر دیا کہ حرمتِ رسول ﷺ پر مر مٹنے والا ایک عام انسان بھی امت کے دلوں کا سلطان بن جاتا ہے۔

علامہ اقبال نے علم دین کی شہادت پر کہا کہ یہ بڑھئی کا بیٹا ہم جیسے فلسفیوں پر بھاری ہے۔ اقبال کا یہ جملہ آج بھی غیرت مند مسلمانوں کے دل میں ایمان کی چنگاری روشن کرتا ہے۔ علم دین کی اس قربانی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں میں دینی بیداری کی ایک نئی لہر دوڑی۔ یہ قربانی صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک نظریے کی جیت تھی۔ اس نے واضح کر دیا کہ مسلمان اپنے نبی ﷺ کی حرمت پر جان بھی قربان کرنے کو تیار ہے۔ بعد ازاں پاکستان بننے کے بعد قانونِ توہینِ رسالت کے تحفظ کے لیے اسی واقعے کو بنیاد بنایا گیا، جس کے تحت آج بھی گستاخانِ رسول ﷺ کو سزائیں دی جاتی ہیں۔

لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں غازی علم الدین شہید کا مزار آج بھی عشقِ رسول ﷺ سے سرشار مسلمانوں کی عقیدت کا مرکز ہے۔ ہر سال ان کی برسی پر ہزاروں لوگ اُن کے مزار پر حاضر ہو کر دعا کرتے ہیں اور اُن کی قربانی کو یاد کرتے ہیں۔ ان کی قبر ایک پیغام ہے، ایک چراغ ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایمان صرف نماز اور روزے کا نام نہیں بلکہ عزتِ رسول ﷺ پر پہرہ دینے کا جذبہ بھی ایمان کا جزوِ اعظم ہے۔

علم دین شہید ہمیں سکھاتے ہیں کہ جب دنیا خاموش ہو جائے، جب قانون بے بس ہو جائے، جب معاشرہ سو جائے، تب ایک عاشقِ رسول ﷺ بیدار ہوتا ہے اور اپنے عمل سے تاریخ رقم کر دیتا ہے۔ ان کی زندگی اور شہادت ایک پیغام ہے کہ سچا ایمان قربانی مانگتا ہے، اور جو قربانی دے، وہی غازی بنتا ہے، وہی شہید کہلاتا ہے، اور وہی دلوں کا حکمران ہوتا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International