شاعر۔ علی رَاحِلؔ پاکستان بورے والا
گر نفع نہیں نقصان بھی نہیں کرتے
کسی کے دَرد کا سامان بھی نہیں کرتے
مزید دَرد بڑھاتے ہیں جو بھی آتے ہیں
پلٹ کے دَرد کا درمان بھی نہیں کرتے
ابھی سے سوچ لو کل کو اگر بچھڑنا ہے
وگرنہ وعدہ و پیمان بھی نہیں کرتے
چُرا کے دِل کو مرے ہو گئے رفو چکر
کسی کو ایسے ہریشان بھی نہیں کرتے
نکال دی ہے تری ہم نے دِل سے حسرت ہی
کہ اب تو ہم ترا ارمان بھی نہیں کرتے
کچھ ایسے توڑا ہمارے بھروسے کو تُو نے
کہ ڈرتے ہیں کسی پر مان بھی نہیں کرتے
اِدھر کہ ہجر کی سُولی پہ جان لٹکی ہے
اُدھر وہ وصل کا فرمان بھی نہیں کرتے
میں جاں بلب ہوں بڑی ہی طویل مدت سے
وہ میری موت کو آسان بھی نہیں کرتے
کسی کی جان بھی جا سکتی ہے اچانک یوں
بچھڑنے کا کبھی اعلان بھی نہیں کرتے
بخیل ایسے ہیں دُشوار ہے بیاں کرنا
نگاہ پیار کی اِک دان بھی نہیں کرتے
سلُوک تُو نے کِیا میرے ساتھ جو رَاحِلؔ
کسی کے ساتھ یُوں نادان بھی نہیں کرتے
Leave a Reply