باتوں میں اجنبی کی ادا تھی رچاؤ تھا
اپنا سا لگ رہا تھا وہ ایسا سبھاؤ تھا
لنگر بھی بہہ رہا تھا سفینے کے ساتھ ساتھ
کچھ ایسا پر شباب ندی کا بہاؤ تھا
بانہوں میں آج ابر کی کھویا ہوا ہے چاند
کل اک حسین جھیل سے اس کا لگاؤ تھا
تاصبح پہلو پہلو چٹختا ہی رہ گیا
بستر مرا سلگتا ہوا اک الاؤ تھا
کرفیو کا ہے نفاذ میں اترا ہوں ریل سے
لگتا ہے میرے شہر میں کوئی چناؤ تھا
نعرہ لگا رہا تھا ہر اک جگنو رات بھر
تاریکیوں کا چاروں طرف سے گھراؤ تھا
دست طلب بڑھاۓ بھٹکتا تھا در بدر
کل دوستوں کا شہر میں کتنا ابھاؤ تھا
نور اقبال (جگتدل)
مغربی بنگال
Leave a Reply