کوئی بھی چیز مرے پاس نہ لائی جائے
اس کی تصویر ، تصور سے مٹا دی جائے
جاگتی آنکھوں نے کس طرح گزاری راتیں
ایک شب اُس کو بھی ایسی ہی دکھائی جائے
کل جو پھرتا تھا چرائے ہوئے نظریں اپنی
کس طرح اس سے نظر آج ملا لی جائے
ایسی بیزار ہوں تجھ سے کہ بس اب چاہتی ہوں
بیتی یادوں سے تری یاد ہٹا دی جائے
آزمائش ہی اگر حسن کی خواہش ٹھہری
دودھ کی نہر نہ کیوں پھر سے بہا دی جائے
اب نہ آئے گا اسے لاکھ بُلا تمثیلہ
عقل کی بات جنوں کو یہ سُجھا دی جائے
شاعرہ تمثیلہ لطیف
Leave a Reply