درد کابوجھ ترے شہر سے لائے ہوئے لوگ
اب کہاں جائیں یہ زخموں کوسجائے ہوئے لوگ
ہیں اس آسیب کے ہر روپ سے انجان ابھی
یہ جو ہیں عشق حقیقت کوبھلائے ہوئے لوگ
کون کہتا ہے کہ زندہ ہیں بظاہر زندہ
روح کا بوجھ بدن میں ہی اٹھائے ہوئے لوگ
بنتے جاتے ہیں یہ تصویر گئے وقتوں کی
ہجرکے روگ کوسینے سے لگائے ہوئے لوگ
وہ جو کٹیا تھی جہاں عشق بسیرا تھا کبھی
وحشتوں کے ہیں وہاں اب تو ستایے ہوئے لوگ
ہیں یہی جن سے سلامت ہے محبت کاوجود
پھول پتھرمیں وفاﺅں کے کھلائے ہوئے لوگ
حال پوچھونہ کبھی بچھڑے دلوں کاشاہیں
اپنے لاشوں کوہیں شانوں پہ اٹھائے ہوئے لوگ
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
Leave a Reply