قدموں میں وہ امیر کے جس رات گر پڑے
اس رات دل کے پیڑ سے جذبات گر پڑے
تیرے لئے میں لایا ہوں خود کو سنبھال کر
اب تیرے ہاتھوں سے نہ یہ سوغات گر پڑے
پا کر حسین آپ کو اک روز شرم سے
ایسا نہ ہو فلک سے یہ مہتاب گر پڑے
منظر حسین شام کا اک بار دیکھ کر
نظروں سے اپنے آپ کی دن رات گر پڑے
اب اپ جتنا روئیے جتنا بھی روئیے
ہاتھوں سے زندگانی کے لمحات گر پڑے
پل بھر میں سلطنت تری کردےگی زیر خاک
آنکھوں سے بے بسوں کی نہ برسات گر پڑے
جتنے قریب تر تھے وہ سب دور ہو گئے
کچھ روز کے لیے مرے حالات گر پڑے
امداد کر مگر کوئی احسان مت جتا
ایسا نہ ہو کہ پیالہءصدقات گر پڑے
ارشاد عاطفؔ احمدآباد انڈیا
Leave a Reply