زیست ہے برف کی مانند ، پگھل جائے گی
آرزو ، ریت ہے مٹھی سے نکل جائے گی
سب نے کردار نبھانے ہیں چلے جانا ہے
رفتہ رفتہ یہ کہانی بھی بدل جائے گی
آج جو فیصلہ کرنا ہو سمجھ کر ، کرلیں
بات کل آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے گی
ایک مدّت سے اِسی آس میں بیٹھے ہوئے ہیں
یہ مصیبت کی گھڑی دیکھنا ٹل جائے گی
چڑھتے سورج پہ بھی دیکھا ہے زوال آتے ہوئے
یہ جوانی ہے ، بہت جلد ہی ڈھل جائے گی
زندگی تجھ پہ بھروسہ نہیں تمثیلہ کو اب
جلد ہی تو بھی مرے خواب کچل جائے گی
تمثیلہ لطیف
Leave a Reply