وہی میرے مخالف ہیں جنھیں اپنا سمجھتی تھی
وہ جن کے واسطے دنیا سے میں بے جا الجھتی تھی
عدو تھا آسماں میرا ، زمیں بھی تنگ تھی مجھ پر
غموں کی برق بادل سے مرے آنگن میں گرتی تھی
وہ جس دن ، مجھ سے روٹھے تم ، گئے تھے چھوڑ کر مجھ کو
میں اس دن سے شبِ ہجراں میں جلتی اور تڑپتی تھی
میں جس دن رویا کرتی آہیں بھرتی تھی ، مرے ہمدم
تڑپتا دیکھ کر مجھ کو تمھاری عید ہوتی تھی
تمھارے بعد ، مرے دل میں ایسے خوف بس جاتے
کہ ہر آہٹ پہ پتّوں سی لرزتی اور بکھرتی تھی
وہ شامیں یاد ہے ناں جب بھی تم آتے تھے ملنے کو
میں گھر اپنا سجاتی خود بھی سجتی اور سنورتی تھی
میں تمثیلہ ، نہ زندہ تھی نہ مردہ تھی تمھارے بِن
کہے گا کون تم سے کیسے میں جیتی تھی ، مرتی تھی
تمثیلہ لطیف
Leave a Reply