خدا جانے کہ کیوں جرات کا پیکر ٹوٹ جاتا ہے
یہ طوفاں اشک کا پلکوں پہ آکر ٹوٹ جاتا ہے
ہو بوسیدہ تو پھر بازو سے وہ پر ٹوٹ جاتا ہے
کہ جس کی ضرب سے زندان کا در ٹوٹ جاتا ہے
حقیقت کیا حباب آرزو کی روبرو اسکے
جو سطح ِ آب پر آتے ہی اکثر ٹوٹ جاتا ہے
مجھے مرکوز رکھنی ہے توجہ ایک نکتے پر
مسخر قلب ہوجائے تو لشکر ٹوٹ جاتا ہے
سبق دیتا ہے یہ پانی کا دھارا اہلِ دانش کو
کہ ہو جہدِ مسلسل گر تو پتھر ٹوٹ جاتا ہے
کبھی اوسان ہوجاتے ہیں سلب اک حبل ساحر سے
کبھی ایمان کی قوت سے خیبر ٹوٹ جاتا ہے
بتاتا ہے وہ ٹوٹے خواب کی تعبیر یہ اکثر
کہ خود آذر کے ہاتھوں سے بھی پیکر ٹوٹ جاتا ہے
گھروندے بیٹیاں تعمیر کرلیتی ہیں مٹی سے
مگر اک باپ جو اندر ہی اندر ٹوٹ جاتا ہے
اثرانداز ہوجاتا ہے یہ پرواز پر اسکی
پرندے کا اگر اک آدھ جو پر ٹوٹ جاتا ہے
یہ جاکر پوچھ لو معمار کو تعمیر سے پہلے
بنا بنیاد کے جیسا بھی ہو گھر ٹوٹ جاتا ہے
مری نظروں کو ہے مطلوب اک تنویر دردانہ
کہ محرومی سے پندار شناور ٹوٹ جاتا ہے
غضب موجوں کا بس وسط سمندر ہی میں ہوتا ہے
مگر سرکش کا سر ساحل پہ آکر ٹوٹ جاتا ہے
شاعرہ تمثیلہ لطیف
Leave a Reply