کچھ کلامِ حق بھی کہہ لیتے ہیں اپنی بات کو
اور کچھ معنیٰ نئے دے لیتے ہیں جذبات کو
اس قدر تاریکیاں آنکھوں میں کوئی بھر گیا
ہاتھ بھی اب تو سجھائی دے نہ پائے ہاتھ کو
رفتہ رفتہ ختم ہوتی جا رہی ہے سادگی
شہر نگلے جارہے ہیں جا بہ جا قصبات کو
جزُ ترے کوئی نگاہوں کو نہیں جچتا مری
تو ہی اب زائل کرے ان سحر کے اثرات کو
ایسی بھی بے چارگی مولا ، مقدر میں مرے
دور تک دیکھا کیا ، جاتی ہوئی بارات کو
کانچ کی ٹوٹی ہوئی یہ کرچیاں ہیں خواب ، اور
نام تعبیروں کا دے دو خون کے قطرات کو
تھے یہی ایّام ، جب بچھڑے تھے اس سے پہلی بار
لوٹ آئے گا ، نہ پالو ذہن میں خدشات کو
شاعرہ تمثیلہ لطیف
Leave a Reply