بظاہر جتنے بھی میرے یہاں غمخوار بیٹھے ہیں
زباں پر طنز کی لیکر وہی تلوار بیٹھے ہیں
وہ کر کے زندگی اپنی بڑی دشوار بیٹھے ہیں
بجائے پھول کے جو لوگ لیکر خار بیٹھے ہیں
مسیحائی ذرا کر دے تو چھو کر اپنے ہاتھوں سے
تری فرقت میں ہم کب سے یہاں بیمار بیٹھے ہیں
گری دیوار تو سلجھی مرے ہی قتل کی گتھی
مرے قاتل تو گھر میں ہی پسِ دیوار بیٹھے ہیں
دلوں میں نفرتیں پیدا ہوئیں ہیں جن کو پڑھ پڑھ کر
لئے ہاتھوں میں ہم اب بھی وہی اخبار بیٹھے ہیں
گلے ملنا تو میں بھی چاہتا ہوں بھائیوں سے پر
چھپا کر آستینوں میں وہ خنجر یار بیٹھے ہیں
انھیں حاصل ہوئے بنگلے انھیں حاصل ہوئیں کاریں
غریبوں کے جو گھر کر کے میاں مسمار بیٹھے ہیں
یہ گھر کی بات ہے گھر ہی میں رہ جائے تو اچھا ہے
تماشا دیکھنے کو ورنہ سب تیار بیٹھے ہیں
زباں تک کھولنے کب دی کسی کو سامنے اپنے
جھکائے سر جو اب عاطفؔ سرِ بازار بیٹھے ہیں
ارشاد عاطفؔ احمدآباد انڈیا
Leave a Reply