اسِ سے پہلے مری چاہت ، تری قربت مانگے
تجھ کو پا لینے کی خواہش ، بڑی جرأت مانگے
اتنے وارفتہ تھے جذبات لپٹ جانے کو
دفعتاً کیسے کوئی تجھ سے اجازت مانگے
وہ سبک بار سراپا ہے کہ تجھ سے ، توبہ
نیند میں چلنے کے انداز ، قیامت مانگے
یہ بھی اعجاز ترے سرو قدِ ناز کا ہے
سر نگوں ہو کے صنوبر تری قامت مانگے
صبح کی سردی بھری دھوپ میں ہمت ہی نہیں
شعلہ تمثال ترے لب سے تمازت مانگے
چھو کے آنچل کو ترے کوئی دھنک ہے مسرور
تیری آنکھوں سے کوئی آئنہ ، حیرت مانگے
تو ، قبیلے کے اصولوں کا ہے پابند اب تک
اور مرا عشق ، کہ اکثر نئی تہمت مانگے
بخت میں میرا خدا ، لکھ دے جو یہ خُلد نژاد
کون فردوس میں پھر ، حور کی صحبت مانگے
آمدِ فصلِ بہاراں پہ یہ دیکھا ہے سمیطٓ
پھول کشکول اٹھائے تری نکہت مانگے
خواجہ ثقلین سمیطٓ
ناگپور۔ انڈیا
Leave a Reply