عمر بھر ایک ہی معنی تو نہیں چھاؤں کے
حوصلے ٹوٹ بھی جاتے ہیں کبھی ماؤں کے
دشت کے سینے پہ کچھ نقش بنے پاؤں کے
اور ہیبت سے جگر پھٹ گئے صحراؤں کے
دیکھتی ہیں کبھی قبروں، کبھی بچوں کی طرف
دیکھنا عید پہ چہرے کبھی بیواؤں کے
شہر میں آئے تو شیشے کی طرح نازک تھے
اور پھر سنگ ہوئے لوگ مرے گاؤں کے
جتنی گہری تری آنکھیں ہیں مرے دشت نورد
اس قدر گہرے تو سینے نہیں دریاؤں کے
آپ ان کو فقط آنسو نہ سمجھنا یارو
یہ جنازے ہیں، جنازے بھی تمناؤں کے
گھر سے نکلے ہوئے بچوں کی خدا خیر کرے
گھر میں بیٹھے ہوئے دل بیٹھ گئے ماؤں کے
فہد قیصرانی
Leave a Reply