پہلے قدم کوئی بھی اٹھانے نہیں دیا
جب اٹھ گیا تو اس کو بڑھانے نہیں دیا
اس نے تو اپنی داستاں کردی بیاں مگر
ہم کو ہمارا درد سنانے نہیں دیا
طوفاں کی جستجو تھی بجھادے چراغ دل
لیکن چراغ ہم نے بجھانے نہیں دیا
تلوے کسی کے چاٹ کے پاؤں بلندیاں
اتنا کمال مجھ کو خدا نے نہیں دیا
رہبر ہماری قوم کو ایسے ملے یہاں
جاگے نہ خود کسی کو جگانے نہیں دیا
معلوم ہو اسے بھی اندھیروں کا بانکپن
یہ سوچ کر چراغ جلانے نہیں دیا
کوشش تو اس نے کی تھی نشانہ لگائیں گے
تم نے مگر وہ تیر چلانے نہیں دیا
بغض و حسد تو دل میں رہا عمر بھر مگر
حسنِ سلوک دل میں سمانے نہیں دیا
ارشاد عاطفؔ احمدآباد انڈیا
Leave a Reply