زندگی پر غموں کے سائے ہیں
خواب دہلیز تک تو آئے ہیں
کل مری نیند بھی پرائی تھی
آج یہ خواب بھی پرائے ہیں
اُن کی آواز آ رہی ہے مجھے
وہ جنازے میں میرے آئے ہیں
جال صّیاد کا جلانے پر
یہ پرندے بھی مسکرائے ہیں
جگنو کی بہت ضرورت ہے
آندھیوں نے دیے بجھائے ہیں
آج انجان ہو گئے ہیں وہ
ناز جن کے کبھی اٹھائے ہیں
آج سارا ہی مان ٹوٹ گیا
آج سارے وہ خط جلائے ہیں
ہم نے کردار کیا ہے پوچھا تھا
وہ کہانی میں کھینچ لائے ہیں
یادِ ماضی میں کیا نمایاں تھا
کس کو تمثیلہ چھوڑ آئے ہیں
شاعرہ تمثیلہ لطیف
Leave a Reply