یہ رسم تو ، سرِ بازارِ مصر عام نہیں
خریدنا بھی ہے یوسف کو اور دام نہیں
یہ جگنوؤں کی مشالیں ، یہ دُھند اوڑھے پیڑ
مرے نصیب میں اتنی حسین شام نہیں
بہت عزیز ہے ، عزت مجھے قبیلے کی
تری طرح مرے جذبات بے لگام نہیں
تو میری نذر کرے ، کیسے سلطنت دل کی
تری نظر میں جو چاہت کا احترام نہیں
میں سج سنور کے تری راہ خواب میں دیکھوں
سوائے اس کے ، مجھے کیا کچھ اور کام نہیں
ابھی تو اور ہیں درپیش امتحاں مجھ کو
مرے عزیز ! یہ قصہ ابھی تمام نہیں
اُسے تو ، لے کے عَلَم معرکے میں لڑنا ہے
جو اپنی جان کی پروا کرے ، امام نہیں
جو جانتا نہیں ، معیار تیرا تمثیلہ !
کتابِ دل میں ، ابھی درج ، اُس کا نام نہیں
تمثیلہ لطیف
Leave a Reply