ساری بستی کو یہ عادل کے سوا ، معلوم ہے
لاش تک کو ، اب تو قاتل کا کھُرا معلوم ہے
کتنا درد انگیز ہے یہ سانحہ معلوم ہے
اب بھی سینے میں مچی ہے کربلا ، معلوم ہے
ہاتھیوں کی ایسی بربادی ابابیلوں نے کی
اب نہ پیدا ہو گا کوئی ابرہہ ، معلوم ہے
لاکھ ہو دریا کی گہرائی نگاہوں میں مگر
کیا مری چاہت کی تجھ کو انتہا معلوم ہے
دن میں سو سو بارجو اٹھتی تھیں اُن آنکھوں کو اب
تیرے گھر سے میرے گھر کا فاصلہ معلوم ہے
دیکھ کر منظر بچھڑنے کا مری آنکھوں میں رات
کس قدر رویا تھا عکسِ آئنہ ، معلوم ہے
بعد مدت کے اچانک تجھ سے ملنے کا خیال
دل میں تمثیلہ کسی دن آئے گا معلوم ہے
تمثیلہ لطیف
Leave a Reply