لگتے ہیں دن حیات کے دُشوار سے مجھے
تم نے لگا دیا ہے یوں دیوار سے مجھے
تعویذ کوئی کارگر نہ ہی کوئی دوا
ملنی شفا ہے بس ترے دیدار سے مجھے
ضدی ہے انتہا کا وہ ، میں بھی انا پرست
مجھ سے گلے ہیں یار کو ، اور یار سے مجھے
لیتی ہیں جان یہ ترے لہجے کی تلخیاں
دیتا ہے زخم کس لیے تلوار سے مجھے
شاید خرید لیتا میں دے کر کوئی بھی دام
لیکن وفا نہ مل سکی بازار سے مجھے
آنکھوں سے تیری پڑھ چکا ہوں حالِ دل ترا
لگتا نہیں ہے ڈر ترے انکار سے مجھے
اوجھل ہوا ہے آنکھ سے جب سے وہ مہ جبیں
لگنے لگے ہیں آئنے بے کار سے مجھے
قدموں میں ہی گزار دوں اس کے میں زندگی
ذُلفی اگر پکار لے وہ پیار سے مجھے
ذوالفقار علی ذُلفی
( پنڈ دادنخان جہلم )
Leave a Reply