شاخ اِس بات پہ خُوش، پھول اسی کا حق ہے
پھول خوش فَہم کہ خُوشبو پہ سبھی کاحق ہے
تم جو کل آؤ تو پھر بات تمہی سے ہو گی
آج تو مجھ پہ مِری تِیرہ شبی کا حق ہے
تیری آنکھوں کا یہ مَے خانہ سلامت باشد !
میں وہ مَیکش ہوں جِسے تِشنہ لبی کا حق ہے
کون کافر ترے ہمراہ چلے منزل تک
میں ہوں رَہرَو مجھے بے راہرَوِی کا حق ہے
غمِ اِمروز کو نسبت میری تخلیق سے ہے
گردشِ حال کا مُجھ پر تو تَبھی کا حق ہے
آؤ ! ترحِیلِ غمِ دَہر پہ کُچھ بات کریں
ہم ہیں بِینا تو یہی دِیدہ وَری کا حق ہے
میری محرومی بجا، اُس سے ہے شکوہ بے جا
کیسے مل جائے مُجھے وہ جوکسی کا حق ہے
ہو چُکی اب تو مقرّر میرے سَر کی قیمت
اب مُجهے شہر میں شورِیدہ سری کا حق ہے
(سلیم کاوش
Leave a Reply