خواب زاروں میں کبھی چھوڑ آئیں ماں کی لوریاں
جاگی آنکھوں کو غنودہ کر رہی ہیں تھپکیاں
قربتوں میں جب بدل جانے لگی ہیں دوریاں
پھر ہری ہونے لگی ہیں چاہتوں کی ٹہنیاں
دور پربت سے اتر کر چھاگئی ہیں بدلیاں
کیوں ہوائیں لے کے اُڑ جانے لگی ہیں چُنریاں
ہوگیا بوجھل اچانک دل ، گلا بھی رُندھ گیا
جب شجر کو یاد آئیں پنچھیوں کی بولیاں
عصمتیں بھی جن کے آگے ہیچ لگتی ہیں کبھی
بھوک جب بے چین کر جاتی ہیں اکثر روٹیاں
بھوک پھر رسی پہ چلوائے گی مفلس کو اُدھر
اور اِدھر کچھ دیر پھر بجنے لگیں گی تالیاں
کیسے ، من مانی سے وہ باز آئے تمثیلہ بھلا !
چاہے لاکھ انکار سے ہِلنے لگی ہوں بالیاں
*شاعرہ تمثیلہ لطیف*
Leave a Reply