زخم ، گزرے ہوئے موسم کا پتہ دیتے ہیں
نقش پیَروں کے تو دشمن کا کُھرا دیتے ہیں
یاد رکھنا کہ سیاست کے ہیں جو بازی گر
جَل میں امرت کے بھی یہ زہر ملا دیتے ہیں
سحر انگیز مناظر کا فسوں ہے ، مڑ کر
دیکھنے والے کو پتھر کا بنا دیتے ہیں
مصلحت کوشی کے سفاک تقاضے اکثر
سچ کے ہونٹوں پہ بڑا قفل لگا دیتے ہیں
وقت و حالات کی سازش میں ملوث ، لمحے
پھول سے جسموں کو مٹی میں ملا دیتے ہیں
خود پرستی کے لبادوں کی یہ فطرت ہے قدیم
پل میں انسان کو حیوان بنا دیتے ہیں
یہ غلط فہمی کے انداز ہیں جو تمثیلہ !
بیچ کے فاصلے کچھ اور بڑھا دیتے ہیں
تمثیلہ لطیف
Leave a Reply