تجھ سے پیغام رسانی کا وسیلہ تو نہ تھا
دل مرا ، پھر بھی رہِ عشق میں تنہا تو نہ تھا
کن امیدوں پہ میں اس موڑ پہ بیٹھی رہتی
تو نے اک بار بھی ، مڑ کر مجھے دیکھا تو نہ تھا
اس قدر لمبی مسافت جو پڑی قدموں میں
تیری دنیا تھی ، مرا خواب جزیرہ تو نہ تھا
اس کڑی دھوپ میں سستائے بھی کیسے کوئی
دشت میں حدّ ِ نظر تک کہیں سایہ تو نہ تھا
ذہن میں نقش ہے تب بھی ، تری یادوں کی مہک
گو نگاہوں میں بہت دیر تُو ٹھہرا تو نہ تھا
اتفاقاً ہی ملاقات تھی اپنی شاید
کاتبِ بخت نے تجھ کو ، مرا لکھا تو نہ تھا
شاخ ، تمثیلہ اگر کاٹنی لازم ہے تو دیکھ !
اُس پہ پنچھی کا کوئی رین بسیرا تو نہ تھا
تمثیلہ لطیف
Leave a Reply