حقیقت یاد رہتی ہے ، فسانے بھول جاتی ہوں
میں دل میں رکھ کے یادوں کے خزانے ، بھول جاتی ہوں
وہ تیری یاد کے جگنو ، وہ تیری پیار کی باتیں
شبِ تنہائی میں موسم پرانے ، بھول جاتی ہوں
مجھے الزام مت دینا کبھی تفریق کاری کا
نگاہوں میں نشے کے بادہ خانے بھول جاتی ہوں
میں جب بھی دھند کی وادی میں محوِ خواب ہوتی ہوں
تو ، تعبیروں کے امکانی ٹھکانے بھول جاتی ہوں
شبِ تنہائی میں اکثر ، بلاتی ہوں تمھیں دل سے
نہ آنے کے میں خود سارے بہانے ، بھول جاتی ہوں
بڑے ناداں ہیں تیرے شہر کے باسی ، کہ جو سمجھے
ملے تھے درد جن میں وہ زمانے بھول جاتی ہوں
ہوا تبدیل معیارِ رفاقت ایسے تمثیلہ !
نئے سب یاد رہتے ہیں پرانے بھول جاتی ہوں
Leave a Reply