ایسا لگتا ہے خود اپنے سے عداوت کی تھی
ہم نے بھولے سے کسی شخص کی ، چاہت کی تھی
اُس کی مانگی ہوئی ، رد ہوتی نہیں کوئی دعا
جس نے پوری کسی مفلس کی ضرورت کی تھی
جانے والے کا تکا کرتی ہوں رستہ اب بھی
میں نے تقدیر سے فرقت کی شکایت کی تھی
شاخوں پر بیٹھ کے پڑھتے ہیں پرندے تسبیح
میں نے بس ، پیڑ لگانے میں مشقّت کی تھی
خواب میں ہوتا ہے دیدارِ مدینہ اکثر
میں نے اشعار میں سرکار ص کی مدِحت کی تھی
طاق راتوں میں ہی پھل دار ہوئے بانجھ شجر
سورۂ کہف کی کل میں نے تلاوت کی تھی
کر دیا رب نے اُسے اور مرے دل کے قریب
ایک شب اٹھ کے تہجّد میں عبادت کی تھی
تیرے غم سے بھی جہنم کے سوا ، پاؤں نجات
آخری عشرے میں رمضاں کے ، یہ مِنّت کی تھی
ہے گلہ آج تک اِس بات کا تمثیلہ اسے !
میں نے بچپن میں بہت اُس سے شرارت کی تھی
تمثیلہ لطیف
Leave a Reply