تو بھی میرے خلاف ہے میں نے سنا برا لگا
سب نے کہا مگر مجھے تیرا کہا برا لگا
جتنے پرانے تھے رقیب اب تو وہ بن گئے حبیب
اس داستان عشق میں اک یہ نیا برا لگا
تو نے جو دل دکھایا تھا اب اس کا پوچھنا بھی کیا
تیرا بھی دل میرے سبب اج دکھا برا لگا
سنتا نہیں ہے بات بھی ہو گئی ہے رات بھی
میرا خدا تو ٹھیک ہے تیرا خدا برا لگا
سن کے یہ گیت جاز کا پھرتا تھا خوش میں ترے ساتھ
ٹو جو نہیں ہے ساتھ تو
اج سنا برا لگا
جب تک ملا نہیں تھا تو تب تک تو اک خدا تھا تو
جب سے ملا تیرا پتہ تیرا پتہ برا لگا
تجھ سے تھی ساری رونقیں
تیرے بغیر گھر تھا کیا
خود ہی جلا دیا اسے خالی پڑا برا لگا
: میں آدمی نہیں ہوں ٹھیک
یہ میں بھی جانتا ہوں پر
بس تم سے پوچھنا ہے دوست
تم کو بھی کیا برا لگا
اظہر عباس
Leave a Reply