تُم تو اپنا کے مُجھے یُوں نہ پَرایا کرتے
غیر تو غیر ہیں یہ تُم نہ خُدایا کرتے
جن کی تَزئِین میں شامِل ہو مَحبت کی دَھنک
ایسے لَمحوں کو نہیں لوگ بُھلایا کرتے
جو بھی دیکھے وہ تَکَلُّم کا تقاضا کر دے
ایسی تصویر نہیں یار بنایا کرتے
میں نے چاہا تھا تِری شام مِرے نام ہوتی
اور تِرے خواب مِری نِیند سَجایا کرتے
دامنِ دل کو نِچوڑا ہے مِری پَلکوں نے
یُونہی آنکھوں میں تو آنسو نہیں آیا کرتے
تُو نے ہی چھوڑ دیا ہاتھ تو پھر لوگوں میں
کیا لکیروں کو لکیروں سے مِلایا کرتے
وہ جہاں لوگ بھی موسم کی طرح ہوں کاوش
اَیسے شہروں میں نہیں لَوٹ کے جایا کرتے
سلیم کاوش
9 مئی 2024
Leave a Reply