rki.news
خود عدل کے ایواں میں ستم بیچ رہے ہیں
کہتے ہیں جو، ہم آنکھ کا نم بیچ رہے ہیں
ایمان کی غیرت کو ہم اغیار کے در پر
ایمان کی کھا کھا کے قسم بیچ رہے ہیں
کھولے ہوئے تسکین و تعیش کی دکانیں
عارض کی شفق ،زلفوں کے خم بیچ رہے ہیں
ہم لوگ ہیں توحید کی آیات کے حامل
اور خلق کو پتھر کے صنم بیچ رہے ہیں
باندھے ہوئے تمجید کی،توحید کی دستار
“ہم ارضِ مقدس کا حرم بیچ رہے ہیں”
ایوان میں اس بردہ فروشی کے ذرا دیکھ
ہم قوم کو بے دام و درم بیچ رہے ہیں
اس ملک کے معماروں کی تشخیص بدلنے
منصف بھی تو اب لوح و قلم بیچ رہے ہیں
*شاعرہ تمثیلہ لطیف
Leave a Reply