rki.news
احمد مشتاق صاحب
مِل ہی جائے گا کبھی دِل کو یقیں رہتا ہے وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
اِک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے
دِل فسردہ تو ہُوا دیکھ کے اُس کو لیکن عمر بھر کون جواں کون حَسیں رہتا ہے
Your email address will not be published. Required fields are marked *
Comment *
Name *
Email *
Website
Save my name, email, and website in this browser for the next time I comment.
At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.
© 2025 Rahbar International
Leave a Reply