rki.news
دلِ حزیں کو مرے اور اضطراب نہ دے
اسیرِ فصلِ خزاں ہوں مجھے گلاب نہ دے
یہ بات اور ہے کوئی حسین خواب نہ دے
مگر یہ جاگتے رہنے کا تو عذاب نہ دے
حدِ کمال سے آگے ہے تشنگی میری
بنامِ آب مجھے اب کوئی سراب نہ دے
یہ جانتے ہی نہیں کچھ وفا کے بارے میں
خدا کا واسطہ دل کی انہیں کتاب نہ دے
مرا چراغ ہی کافی ہے روشنی کیلئے
تو اپنے پاس ہی رکھ اپنے آفتاب نہ دے
مجھے پتہ ہے ترے دل کا انتخاب ہوں میں
بھلے ان آنکھوں کو تو اذنِ انتخاب نہ دے
حساب ہم کو جلی بستیوں کا لینا ہے
حویلیوں کے اجالالوں کا تو حساب نہ دے
مجھے پتہ ہے مری بات کا جواب نہیں
“مرے سوال ہی سن لے مجھے جواب نہ دے”
ترا سخن ہو مبارک تجھے میاں اشہر
وہ شاعری ہی بھلا کیا جو انقلاب نہ دے
نوشاد اشہر اعظمی
Leave a Reply