rki.news
بجھاؤ پیاس مت، پی کر بھی تشنہ کام رہنے دو
غزل کے جام میں کچھ شربتِ ابہام رہنے دو
لگا دو لاکھ صابن کوئلہ اجلا نہیں ہوتا
وفا کیشی میں مجھ بدنام کو بدنام رہنے دو
بکھیرو شوق سے اپنی سیاہی نصرتِ شب میں
ہماری روشنائی روشنی کے نام رہنے دو
اگر حق ہے تو رکھو تاجِ جدّت میرے بھی سر پر
روایت سے جڑے رہنے کا بھی الزام رہنے دو
شعاعیں کس طرح پھوٹیں گی معنی آفرینی کی
غزل آئینہ میں کچھ عکسِ استفہام رہنے دو
بہت سی لذتیں ہستی کی کھا جاتی ہے یہ شہرت
میں گم نامی میں ہی خوش ہوں مجھے گم نام رہنے دو
پگھل جائے گی اک دن نفرتی بڑھیا بھی الفت سے
ہٹاؤ راہ سے کانٹے، محبت عام رہنے دو
ہمیں اِس بے خودی نے ہی تو خود سے جوڑ رکھا ہے
ہمارے سامنے راغبؔ خودی کا جام رہنے دو
افتخار راغبؔ
ریاض، سعودی عرب
Leave a Reply