rki.news
نوشاد اشہر
مرحلہ یہ بھی طے کیا چپ چاپ
اپنی ہی آگ میں جلا چپ چاپ
غم اسے بھی ہے میرے بجھنے کا
آج بیٹھی ہے جو ہوا چپ چاپ
آنسوؤں سے لکھی کتاب تھا وہ
آنکھ بھر کے اسے پڑھا چپ چاپ
کیسے ممکن زبان ہوتے ہوئے
مان لوں تیرا فیصلہ چپ چاپ
رہن اپنی انا نہ رکھ پایا
اس کی محفل سے اٹھ گیا چپ چاپ
لڑ جھگڑ کرچلے گئے تم تو
دیر تک میں کھڑا رہا چپ چاپ
کچھ بچا ہی نہیں تھا کہنے کو
طے کیا ہم نے راستہ چپ چاپ
شور بن کر ابھر گئی کیسے
کرنے والے نے کی خطا چپ چاپ
داغ چہرے پہ دیکھ کر اشہر
کیسے رہ پاتا آئینہ چپ چاپ
نوشاد اشہر اعظمی
بلریا گنج اعظم گڑھ
Leave a Reply